109

پردیسی/ چوہدری محمد امیر

کون ہے جس کو اپنے وطن سے محبت نہیں۔جس طرح اپنے ماں ؍باپ سے محبت انسان کی فطرت میں شامل ہے اسی طرح وطن کی محبت بھی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کے اپنے وطن میں رہنے والے لوگ اور سات سمندر

پارپردیسی سب ہی اپنی دھرتی کے لیے جان کا نذرانہ پیش کرنا اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔لیکن وطن سے دُور پردیسیوں کی اپنے وطن پاکستان سے محبت بے مثال ہے۔میں نے وہ وقت اور حالات دیکھے ہیں کہ جب کبھی ہمارے پیارے ملک پاکستان کو کوئی مشکل وقت یعنی قدرتی آفات ،سیلاب ،زلزلہ یااندرونی وبیرونی دشمن کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا تو نہ صرف یہ کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں نے غم وافسوس کا اظہار کیابلکہ ہر ممکن مالی اسباب بھی فراہم کیے اور اس سلسلے میں مختلف یونین اور گروپس نے بڑے احسن انداز میں متاثرین کے لیے رقوم اکٹھی کیں۔اس کے علاوہ ملکی سلامتی کے لیے جگہ جگہ اجتماعی دعاکا سلسلہ بھی ہوتا ہے۔اب پردیسیوں کے حالاتِ ذندگی پیشِ خدمت ہیں
وقت اور حالات انسان کو بہت سے ایسے کام کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں جو انسان کی فطرت اور مذاج کے بالکل برعکس ہوتے ہیں جیسا کہ اپنے گھر اور عزیزواقارب کو چھوڑنا۔ جہاں ایک آدمی اپنے گھرسے دُورہوتا ہے اور اس کو ہر وقت اپنو ں کی یاد او رفکر تنگ کرتی ہے وہیں اُس کو باہر کی زندگی کے مصائب کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔اپنے گھر کے حالات اورمجبوریاں ہر وقت اُس کے پیش نظر ہوتی ہیں اسی لیے ضرورت سے زیادہ بوجھ اُٹھاناوہ اپنا نصیب اورمقدر سمجھتا ہے۔پردیس میں جب ایک آدمی رات کے آخری حصہ میں نیند سے بیدار ہوتاہے تب جہاں اُس کو کام پر جانے کے لیے لباس اور جوتُوں وغیرہ کی فکر لاہک ہوتی ہے وہیں اکثروبیشتر اُس کو ناشتے کا انتظام خود ہی کرنا پڑتا ہے پھر جتنی یاد اُس کو اپنی پیاری ماں کی آتی ہے اور جتنے آنسو اُس کی آنکھوں سے ٹپکتے ہیں وہ شاید بیان نہ کیے جا سکیں۔اُس کے بعد سارا دن گرمی سردی میں سخت سے سخت کام کرتا ہے حالانکہ اُسے پتہ بھی ہوتا ہے کہ کام سے واپس جب گھر جائے گاتو اُس کے والدین،بہن بھائی اور دوسرا کوئی عزیز اُس کے انتظار میں نہیں ہو گا۔ اور کوئی اُس کا حا ل تک نہ پوچھے گا ۔گھر پہنچنے سے پہلے ہی اُس کویہ فکر لگ جاتی ہے کہ اُس نے کپڑے بھی دھونے ہیں اور کھانا بھی تیار کرنا ہے۔بڑی مشکل سے یہ کام ختم ہوں گے کہ نیند کی یلگار شروع ہو جائے گی ۔ ابھی اُس کی تھکاوٹ دُور نہ ہوئی ہو گی کہ اُس کے جاگنے کا وقت ہوجائے گا۔ یہ ایک ایسا سلسلہ ہے کہ جس سے نجات ایک خواب بن جاتا ہے۔
پردیس میں اگرانسان کو کو ئی مصیبت،پریشانی یا کسی بیماری سے واسطہ پڑ جائے تو وہاں دادرسی کرنے والاکوئی نہیں ملتا۔ہر کسی کو کوئی نہ کوئی مسئلہ اور پریشانی رہتی ہے اِس لیے کسی کے پاس وقت نہیں ہوتا کہ وہ کسی دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہو۔یہ بھی ضروری نہیں کہ جہاں کوئی آدمی کام کرتا ہے وہا ں اس کے ملک کے اور لوگ بھی اس کے ساتھ ہوں۔آج کے اس پُرفتن دور میں ہر جگہ رنگ ونسل اور مذہب کی بنیاد پرامتیازی سلوک کیا جاتا ہے ۔ اس لیے جب مصیبت آتی ہے توانسان اپنی مددآپ کے تحت ہی سرخرو ہوتا ہے۔پردیس میں بیماری کی صورت میں ایک عام آدمی علاج کی اچھی سہولت پانے سے بھی قاصر رہتا ہے۔بدقسمتی سے اگر کسی کو گھر سے کوئی افسوسناک پیغام موصول ہوجیسے کسی رشتہ دار یا دوست وغیرہ کی موت کا تو پھر اس پرائی جگہ پے یہ غم کئی گنا بڑھ جاتا ہے
پردیس میں جب عید یا اُس ملک کے قومی دِن پر عام تعطیل ہوتی ہے تب بھی پردیسیوں کی محفل اپنوں نہیں بلکہ مختلف علاقوں اور مختلف روایات کے حامل لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے جو اُن کے آس پاس ہوتے ہیں یا ساتھ کام کرتے ہیں۔دیارِغیر میں عید کا وہ مزہ کہاں جو اپنے ملک میں اور اپنوں میں ہوتا ہے۔پردیس میں تو لوگ عید کے دِن بھی پریشان اورافسردہ دکھائی دیتے ہیں۔بس یہ سوچ کر ہرپردیسی اپنے دِل کو اطمینان دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ آج اگر اُس کے گھروالے خوشی سے عید کر رہے ہیں تو اِس میں اُس کی محنت کا بہت بڑا کردار ہے اور اُس کی تمام تر تکالیف دراصل اپنوں کی خوشیوں کے لیے ہی توہیں{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں