سٹیٹ بنک آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق رواں مالی سال 2021-22کے پہلے ماہ جولائی کے دوران پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 77کروڑ30لاکھ ڈالر ریکارڈ فروری 2022میں 78.46 فی صد کمی کے بعد 54کروڑ 50لاکھ ڈالر ہو گیا جو درآمدات میں کمی کے باعث جنوری 2022میں دو ارب 53کروڑ دس لاکھ ڈالر تک پہنچ گیا تھا مالی سال 2021کے ابتدائی آٹھ ماہ کے دوران کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بارہ ارب ڈالر کی سطح عبور کر گیا اور فروری 2021میں یہ خسارہ صرف تین کروڑ چالیس لاکھ ڈالر تھا رواں مالی سال کے ابتدائی آٹھ ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بارہ ارب نو کروڑ نوے لاکھ ڈالر تک بڑھ گیا جبکہ گذشتہ مالی سال کی اسی مدت میں ننانوے کروڑچالیس لاکھ ڈالر سرپلس تھا ماہانہ خسارہ رواں مالی سال کے دوران فروری میں 0.5ارب ڈالر کے کم ترین اعدادشمار پر آگیا ہے تاہم بڑھتے ہوئے خسارے نے ملک کو مشکل میں ڈال دیا ہے جیسا کہ 2018میں تھا جب کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بیس ارب ڈالر کے لگ بھگ تھامالی سال 2021میں اسے ایک ارب اکانوے کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر تک لانے میں کامیابی حاصل ہوئی لیکن بڑھتی ہوئی درآمدات اور زیادہ بیرونی ادائیگیوں نے اسے مالی سال کے آغاز سے ہی دوبارہ بڑھا دیا رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ انتیس ارب ستاسی کروڑ ستر لاکھ ڈالر تھاجبکہ مالی سال 2020کی اسی مدت میں یہ خسارہ سترہ ارب اکتیس کروڑاسی لاکھ ڈالرتھاکرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کسی بھی ایک بیلنس شیٹ کی طرح آمدنی اور اخراجات کی طرح درآمدات اور برآمدات کا ایک موازنہ ہوتا ہے اس میں خسارے اورفاضل رقم سے معیشت کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جاسکی دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ معیشت میں نموہو رہی ہے یعنی اقتصادی ترقی میں اضافہ ہو رہا ہے اگر ملک میں اقتصادی ترقی نہیں ہو گی تو درآمدات کم ہو جائیں گی اور کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس سرپلس ہو جائے گا یہ مثبت اشارہ نہیں ہو گااس وقت اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی کی شرح نمو تقریباََدو فی صد ہے ممکن ہے دوفی صد کی شرح نمو ایک ترقی یافتہ ملک کیلئے مناسب ہو لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں افراط زر کی شرح تقریباََ نو فی صد ہے یہ شرح نمو کوئی معنی نہیں رکھتی ہے اشارے ایسے بھی ہیں کہ آنے والے وقت میں افراط زر کی شرح میں اضافہ ہو جولائی 2019سے لے کر جولائی 2020 تک پاکستان کی درآمدات میں 106ارب ڈالر کی کمی آئی ہے 2019میں درآمدات تیئس ارب ڈالر کی تھیں جبکہ 2020میں درآمدات 121.4ارب ڈالر تھیں جولائی 2019سے لے کو جولائی 2020کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اپنے ملک ادائیگیوں میں اضافہ 6.8فی صد ہوا جو کہ ترسیل زر میں اضافہ کا رجحان ظاہر کرتا ہے اسی برس جون سے جولائی کے درمیان بیرون ملک پاکستانیوں کی ادائیگیوں میں چھ فی صد اضافہ ہوا پاکستان کی برآمدات میں 6.1فی صد اضافہ ہوا اور درآمدات میں 0.7فی صد کمی آئی درآمدات میں کمی بنیادی وجہ کووڈ19آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق پاکستان کے اخراجات میں کمی لانا قرار دیا جا سکتا ہے پاکستان کے سرپلس کو بہت احتیاط کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارہ یا اس میں فالتو اضافہ ہونا یا نہ ہونا رونے دھونے کی کوئی بات ہے اور نہ ہی جشن منانے کی کوئی بات ہے اصل میں ان کا انحصار ان اساسی عوامل پر ہوتا ہے جو اس سرپلس کو پیدا کرنے کا سبب بنے ہوں پاکستان کے معاملے میں کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس کچھ تو دنیا میں تیل کی قیمتوں کے گرنے کی وجہ سے پیدا ہوا جس کی وجہ سے تیل کی
درآمدادکے اخراجات میں کمی آئی اور کچھ درآمدات میں کمی کا ہونا ہے درآمدات میں کمی اقتصادی سست روی کی وجہ سے ہوئی کیوں کہ اس وقت نئی مشینری اور سازوسامان کی طلب کمی دیکھی گئی ہے اس وقت یہ کہنا کہ کس وجہ سے برآمدات میں اضافہ ہوا ہے بہت مشکل ہے تاہم یہ ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن برآمدات کے طویل مدتی اضافے کیلئے ایک برابری کے مقابلے کی پالیسی کی ضرورت ہے حکومت کو اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے معیشت کی مجموعی تصویر کو دیکھاجائے تو نظر آئے گا کہ کووڈ19کے اقتصادی سرگرمیوں میں شدید کمی آجانے کے بعد سرمایہ کاری بند ہو جانے کے باعث ملک کسادبازاری سے گزر رہا ہے اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے ان حالات میں بہتری کی امید کی بات کرنا غلط ہے اور یہ لوگ ان حقائق کو نظر انداز کرکے کیسے کرنٹ اکاؤنٹ میں سرپلس کی بات کر سکتے ہیں جب مستقبل کی ترقی کی ضامن مشینری کی درآمد کی ہو اور سب سے زیادہ یہ کہ لوگوں سے یوٹیلیٹیز کے بھاری بل وصول کئے جارہے ہوں اور عام آدمی مہنگائی کی چکی میں پساجا رہا ہو پچھلے مالیاتی سال پاکستان نے تیرہ ارب ڈالر کے قرضے حاصل کئے جو کہ پاکستان کی تاریخ کا ایک برس کا سب سے بڑا قرضہ تھا ہم قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے حاصل کئے جو کہ پاکستان کی تاریخ کا ایک برس کا سب سے بڑا قرضہ تھا ہم قرضوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرضے لے رہے ہیں ہم نے پچھلے دو برسوں میں انتیس ارب ڈالر قرضے لئے جن میں چھبیس ارب ڈالر پی ٹی آئی حکومت نے لئے ان میں سے انیس ارب ڈالرفوراََ ہی اپنی مدت پوری کرنے والے واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کیلئے منہا کر لئے گئے مالیاتی خسارہ قومی مجموعی پیداوار کا 8.1فی صد ہو گیا ہے اس وقت کل خسارہ اڑتیس کھرب روپے ہے پاکستان کا کل قرضہ قومی مجموعی پیداوار کا چوراسی فی صد ہو چکا ہے اس لئے اس قرضے کا اتنا زیادہ ہونازیادہ خدشے کی بات ہے اصل مسئلہ ان قرضوں کو واپسی کے درست انتظامات کا عدم وجود ہے یعنی مناسب موثر ٹیکسیشن کا نظام اور منافع بخش پراجیکٹس کا نہ ہونا اس لئے اقتصادی ترقی کی بحالی کا جو گراف دنیا بھر میں نظر آرہا ہے وہ پاکستان میں فی الحال بنتا نظر نہیں آرہا ہے
