“وہ پنچھی پھر واپس نہیں لوٹا”

زندگی میں کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کے اندر کسی پنچھی کی مانند جنم لیتے ہیں۔ وہ پنچھی ہمارے خوابوں، احساسات اور پاکیزہ خیالات کی دنیا میں آزادانہ اڑان بھرتا ہے۔ کبھی بچپن کی ہنسی میں چھپا ہوتا ہے، کبھی ماں کی آغوش کی نرمی میں، کبھی کسی خواب یا محبت کی پہلی کرن میں۔ مگر ایک وقت آتا ہے جب یہ پنچھی خاموشی سے اپنے آشیانے سے نکل جاتا ہے، آسمان کی وسعتوں میں کہیں گم ہو جاتا ہے، اور ہم صرف یہ کہہ پاتے ہیں — وہ پنچھی پھر واپس نہیں لوٹا۔

زندگی کی دوڑ میں ہم اکثر اس پنچھی کو بھول جاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ معمول پر آ جائے گا، مگر حقیقت یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہم خود بدل جاتے ہیں۔ وہ معصومیت جو کبھی ہماری آنکھوں میں چمکتی تھی، وہ اعتماد جو بغیر کسی خوف کے دل میں بسا ہوتا تھا، وہ جذبات جو بے لوث اور خالص تھے — یہ سب آہستہ آہستہ ماضی کے پردوں میں چھپ جاتے ہیں۔ ہم بڑے ہوتے ہیں، سمجھ دار بنتے ہیں، مگر ساتھ ہی کچھ کھو دیتے ہیں۔ وہ بچپن، وہ خلوص، وہ سادہ پنچھی جو کبھی ہمارے اندر بستا تھا، شاید ہمیشہ کے لیے اڑ جاتا ہے۔

انسان کی زندگی میں تبدیلی ایک اٹل حقیقت ہے۔ کوئی لمحہ، کوئی احساس، کوئی رشتہ ہمیشہ کے لیے ایک جیسا نہیں رہتا۔ کبھی ہم خود کو وقت کی چکی میں پیستے محسوس کرتے ہیں، اور کبھی محسوس ہوتا ہے کہ ہم وہ نہیں رہے جو کبھی تھے۔ اندر کا سکون، اندر کی روشنی، اندر کی سادگی — سب کہیں کھو جاتی ہے۔ مگر سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ ہم جانتے ہیں وہ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ وہ پنچھی، جو کبھی ہمارے اندر گنگناتا تھا، اب صرف خاموشی کی بازگشت بن چکا ہے۔

بعض اوقات انسان خود نہیں سمجھ پاتا کہ اس کے اندر کیا کچھ بدل چکا ہے۔ وہ وہی چہرہ لیے دنیا میں چلتا پھرتا رہتا ہے، مگر دل کے کسی کونے میں ایک خلا، ایک خاموشی، ایک گمشدگی بسی ہوتی ہے۔ یہی وہ احساس ہے جو ہمیں بار بار یہ احساس دلاتا ہے کہ کچھ واپس نہیں آئے گا۔ ہم اکثر ماضی کے لمحوں کو یاد کرتے ہیں، بچپن کی ہنسی، پہلی کامیابی، پہلی محبت، یا کسی قریبی شخص کی مسکراہٹ۔ مگر یہ یادیں محض عکس بن کر رہ جاتی ہیں، حقیقت میں وہ وقت واپس نہیں آتا۔ وہ پنچھی پھر واپس نہیں لوٹا — کیونکہ شاید وہ لوٹ ہی نہیں سکتا۔

وقت کا سب سے بڑا ستم یہ ہے کہ یہ ہمیں بدل دیتا ہے، مگر اس تبدیلی کی آہٹ ہمیں دیر سے سنائی دیتی ہے۔ ہم اپنی مصروف زندگی میں، ذمہ داریوں اور خوابوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے، یہ بھول جاتے ہیں کہ اندر کا سکون کب روٹھ گیا۔ جب کبھی رات کی خاموشی میں ہم اپنے دل کی آواز سننے کی کوشش کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ آواز بدل چکی ہے۔ ہم خود اپنے آپ سے اجنبی ہو گئے ہیں۔ وہ پنچھی جو کبھی بے خوف اڑان بھرتا تھا، اب ڈر کے سائے میں کہیں چھپ گیا ہے۔

کچھ لوگ اس پنچھی کو دوبارہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ماضی کی راہوں پر واپس جانا چاہتے ہیں، وہی خوشبو، وہی احساس، وہی روشنی تلاش کرنا چاہتے ہیں۔ مگر وقت کے دریا میں بہہ جانے والے لمحے کبھی واپس نہیں آتے۔ جو بدل گیا، وہ ہمیشہ کے لیے بدل گیا۔ انسان چاہے کتنا بھی کوشش کرے، وہ خود کو وہ نہیں بنا سکتا جو کبھی تھا۔ کیونکہ ہر تجربہ، ہر زخم، ہر خوشی اور ہر رنج ہماری روح پر کوئی نہ کوئی نشان چھوڑ جاتا ہے۔ یہ نشان ہمیں نیا بناتے ہیں، مگر پرانا مٹا دیتے ہیں۔

زندگی کی یہی سچائی ہے — کہ کچھ چیزیں ہمیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ جاتی ہیں تاکہ ہم نئے معنی تلاش کریں۔ وہ پنچھی جو اڑ گیا، وہ صرف ہمارے وجود سے نہیں گیا، بلکہ اس نے ہمیں سکھایا کہ آزادی کیا ہے، کہ کھونا بھی کبھی کبھی حاصل کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ شاید وہ پنچھی اس لیے واپس نہیں لوٹا کیونکہ وہ ہمیں یہ سکھانا چاہتا تھا کہ ہر رخصت کے پیچھے ایک سبق چھپا ہوتا ہے۔ ہر جدائی ہمیں تھوڑا مضبوط، تھوڑا گہرا، اور تھوڑا خاموش بنا دیتی ہے۔

کچھ یادیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں ہم بھول نہیں سکتے، مگر ان کے ساتھ جینا سیکھ لیتے ہیں۔ یہی زندگی کا اصل سفر ہے — یادوں کے ساتھ جینا، مگر ان کے بوجھ تلے دبنا نہیں۔ وہ پنچھی جو چلا گیا، وہ اب ہمارے اندر نہیں، مگر اس کی پرواز کا نشان ہمارے دل پر ہمیشہ رہے گا۔ وہ ہمیں یہ یاد دلاتا رہے گا کہ ہم کبھی خالص تھے، کبھی نرم تھے، کبھی خاموشی سے بھی خوش رہنا جانتے تھے۔ اب وہ پنچھی نہیں ہے، مگر اس کی بازگشت ہمارے وجود کا حصہ بن چکی ہے۔

انسان کے اندر جو پنچھی اڑتا ہے، وہ اصل میں اس کی روح کی علامت ہے۔ یہ وہ آواز ہے جو دنیا کی شور و غل میں دب جاتی ہے، وہ احساس ہے جو وقت کی گرد میں کھو جاتا ہے۔ مگر شاید اس کا نہ لوٹنا بھی ایک نعمت ہے۔ کیونکہ اگر وہ لوٹ آتا، تو شاید ہم کبھی سمجھ نہ پاتے کہ تبدیلی کتنی قیمتی ہوتی ہے۔ ہم یہ نہ جان پاتے کہ پرانی جلد کے نیچے ایک نیا انسان چھپا ہوتا ہے، جو ہر دن اپنے تجربوں سے نکھرتا ہے۔ وہ پنچھی واپس نہیں لوٹا، مگر اس کی غیرموجودگی نے ہمیں اپنے اندر جھانکنے پر مجبور کیا۔

یہی زندگی کا فلسفہ ہے — کہ ہر نقصان ایک سبق ہے، ہر جدائی ایک آغاز۔ ہم اکثر اس پرندے کی غیرموجودگی پر روتے ہیں، مگر دراصل وہ پرندہ ہمیں اڑنا سکھا گیا۔ وہ ہمیں یہ سکھا گیا کہ خاموشی میں بھی معنی ہوتے ہیں، کہ ہر رخصت کے بعد بھی زندگی بہتی رہتی ہے۔ کبھی کبھی، وہ چیزیں جو ہم کھو دیتے ہیں، ہمیں خود کو پانے کا راستہ دکھاتی ہیں۔

تو ہاں، وہ پنچھی پھر واپس نہیں لوٹا۔ مگر شاید اسے لوٹنا بھی نہیں چاہیے تھا۔ کیونکہ اگر وہ لوٹ آتا تو ہم آج بھی وہی ہوتے — نادان، بے خبر، ناپختہ۔ مگر اب ہم جان چکے ہیں کہ زندگی کیا ہے، وقت کی اڑان کیا ہے، اور خاموشی کی گہرائی کتنی وسیع ہے۔ وہ پنچھی اب آسمان کا حصہ بن چکا ہے، اور ہم زمین پر اس کی یاد کے ساتھ جینا سیکھ چکے ہیں۔

زندگی دراصل ایک سفر ہے، اور ہر اڑان کا اختتام ایک نئی شروعات ہے۔ وہ پرندہ جو اڑ گیا، اس نے پیچھے خلا نہیں چھوڑا، بلکہ ایک کہانی چھوڑی — انسان کی، احساس کی، اور وقت کی۔ شاید وہ لوٹ کر نہ آئے، مگر اس کی پرواز نے ہمیں یہ سکھا دیا کہ ہر جدائی دراصل ایک نئی پرواز کی تیاری ہے۔ اور یہی وہ حقیقت ہے جسے قبول کرنے والا انسان کبھی خالی نہیں رہتا۔

آخرکار، شاید ہم سب کے اندر ایک پنچھی ہے، جو کبھی نہ کبھی اڑ جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے تلاش کرنے نکلتے ہیں، کچھ اسے بھولنے کی کوشش کرتے ہیں، اور کچھ اس کے بغیر جینا سیکھ لیتے ہیں۔ مگر ایک بات طے ہے — وہ پنچھی پھر واپس نہیں لوٹا، کیونکہ اس کی پرواز کا مقصد واپسی نہیں، بلکہ ہمیں یہ دکھانا تھا کہ زندگی ہمیشہ آگے بڑھتی ہے، چاہے دل پیچھے رہ جائے۔