عمار یاسر
جوں جوں انتخابات قریب آ رہے ہیں ملک بھر میں انتخابی مہمات کا تیزی سے انعقاد کیا جا رہا ہے۔آئے دن جلسے جلوس دھرنے گویا سیاسی پاور کا منظرِ عام پر مظاہرہ کرنے کو ہر ممکنہ طرزِ عمل اختیار کیا جا رہا ہے.عوامی منتخب نمائندگان ان دنوں عام لوگوں کے بیچ اٹھنے بیٹھنے کو شعار بنائے ہوئے ہیں.چار سال غائب رہنے کے بعد بالآخر عوام کے حضور حاضر ہونا ہی پڑا.میرا تعلق دیہات سے ہے میں یہ بات پورے وثوق سے کہ سکتا ہوں 62 فیصد دیہاتی آبادی میں سے اکثریت ووٹ کے صحیح استعمال سے لاشعور ہیں.حکومت بننے کے بعد ہم سراپا احتجاج ہوتے ہیں.یہ وہی بات ہوئی” اب کیا رونا جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ” .کچھ معاملات میں دور اندیشی سے کام لینے کی اشد ضرورت ہوتی ہے.وقتی لمحاتی چھوٹے چھوٹے ذاتی یا اجتماعی مفاد کی خاطر ووٹ قربان کرنا سراسر کم فہمی ہے.شہری آبادی دیہی آبادی سے نسبتاً شعور یافتہ ہے.گاؤں کی بات کی جائے تو سادہ مزاجی کا عروج یہ ہے کہ 4 سال کی تکالیف کاٹنے کے بعد اپنے منتخب شدہ نمائندے کو عوام کے بیچ ظاہری مسکراہٹ اور خوش اسلوبی سے بات کرتے دیکھ کر متاثر ہو جاتے ہیں.من ہی من میں آئندہ 5 سالہ علاقائی نمائندگی کا تاج انھی کے سر سجانے کی ٹھان لیتے ہیں جو کہ مستقبل میں باعثِ ضرر ثابت ہوتا ہے دیہات میں ووٹنگ کن بنیادوں پر کی جاتی ہے؟ دہی علاقوں میں ووٹنگ کا معیار انتہائی غلامانہ اور تعصبانہ ہیں.مقدم الذکر مسئلہ برادری ازم ہے.قوم ذات پات حسب و نسب دیہاتوں میں ووٹنگ کی بنیاد ہے.کسی علاقے میں اگر اکثریت میں سے کوئی سیاست میں قدم دکھے تو فتح کے مواقع سو فیصد سے بھی ذائد ہوتے ہیں.اقلیت کا اکثریت کے ہم رکاب ہونا ذاتی دشمنی پالنے کے مترادف ہے.علاوہ ازیں جان پہچان ذاتی تعلقات بھی ووٹنگ کا دوسرا بڑا معیار ہے.تیسرا اور سب سے اہم نقطہ موروثی سیاست ہے.اس کرپٹ نظام میں طاقتور کی اجارہ د اری دیکھ دیکھ کر یہ بھی ایک معیار بن چکا ہے کہ ووٹ اس کو دی جائے جس کا سیاسی بیک گراؤنڈ ہو.علاقہ میں جس کا اثرورسوخ ہو.جو مالی اعتبار سے نمایاں ہو.ایسے شخص کو ووٹ دینے کا مقصد جان کر آپ کو حیرانی کے ساتھ ہماری 62% آبادی کی ذہنی نشوونما اور غیر سنجیدگی پر افسوس ہو گا.ایک فنکشن پر میں مدعو تھا.طعام کا وقت ہوا.میز پر میری عمر سے دوگنا بڑے بزرگ حضرات براجمان تھے ایسے موقع پر سیاست عمومی موضوع ہوتا ہے.ایک سفید ڈارھی سفید کپڑوں میں ملبوث عزت مآب بولے میں فلاں شخص کو ووٹ دوں گا وجہ پوچھنے پر فرمانے لگے کہ وہ موصوف تھانے کچہری کے معاملات میں ہماری معاونت کرتے ہیں ! اس کرپٹ نظام نے ذہنی حالات کو کس قدر تباہ کن مراحل میں ڈال دیا ہے میں سوچ کر سکتے میں آ جاتا ہوں.وڈیرہ سسٹم بھی کرپٹ حکمران لانے میں درخشاں اہمیت کا حامل ہے.حاکم طبقہ بڑے جاگیر داروں وڈیروں سے مک مکا کر لیتے ہیں اور پسماندہ عوام کا ووٹ خرید لیا جاتا ہے.اس صورتحال میں عوام ذہنی غلام ہونے کے ساتھ ساتھ جسمانی غلام گویا غلامی کے سارے تقاضوں پر پورا اترتی ہے. اس کے علاوہ ووٹنگ کی ایک اور بنیاد باپ دادا کے نقوشِ پاء پر عمل پیرا ہونا ہے.جس پارٹی کو ہمارے اسلاف منتخب کرتے رہے ہیں ہم بھی اس پارٹی کے علاوہ کچھ تخیل میں بھی نہیں لا سکتے.یہ کند ذہنوں میں پروان چڑھنے والی سوچ ہے جو لوگ اس نظریے کے قائل ہیں مجھے اس بات کا جواب دے دیں کہ جو لوگ اپنے باپ دادا کا دین چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے ؟ سوال یہ جنم لیتا ہے آخر ووٹنگ کن بنیادوں پر کی جائے؟ ووٹ دینے کی صرف ایک مستند بنیاد ہے اور وہ ہے “نظریہ”.ووٹ کسی شخص کو نہیں بلکے نظریے کو دی جائے.ملک مفاد قومی مفاد عام آدمی کے مفاد کا نظریہ جو اس نظریے پر کھرا اترے اسے ووٹ دیں.اس نظریے کو ووٹ دیں جو تھانے کچہریوں میں آپ کی مدد کرنے کے بجائے پولیس سسٹم میں اصلاحات لائے کہ پولیس بے جا عام آدمی کو تنگ نہ کرے.اس نظریے کو ووٹ دیں جو دیہات پر بھی اتنا ہی کرم فرما ہو جتنا کہ شہر پر.جمہوریت کو ووٹ دیں.ایک حقیقی جمہوری طرزِ حکومت کو آگے لائیں آپ کے منتخب شدہ نمائندے آپ جیسے آپ میں سے ہی آگے آئیں جو آپ کی فلاح و بہبود پر کام کریں.ایسا تب ہی ممکن ہے جب ووٹ نظریاتی بنیادوں پر دیے جائیں.مزید سہل الفاظ میں ووٹ اس شخص کو دی جائے جو تعلیم یافتہ ہو,آپ میں سے ہو,آپ جیسا ہو,ووٹ لینے کے بعد اس کامسکن شہر نہ ہو کیونکہ علاقائی نمائندگی کا اصل حقدار وہ ہے جو ہر وقت عام لوگوں کے بیچ رہا ہو اور عام آدمی کے مسائل سے آشنا ہوووٹ ضرور ڈالیں.دوسروں کو بھی تلقین کریں مگر کسی کو اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ دینے پر زور زبردستی نہ کریں حتی کہ اپنے اہل و عیال سے بھی نہیں.یہ ہر شخص کا ذاتی معاملہ ہے. میرے ایک دوست انگلینڈ ہوتے ہیں ان کا ہسپتال جانا ہوا وہاں چیک اپ کے دوران ڈاکٹر سے بات شروع ہو گئی کے انتخابات آنے والے ہیں آپ ووٹ کس کو دیں گے.ڈاکٹر نے جواب دیا ووٹ میرا اپنا ذاتی معاملہ ہے میرے والد صاحب بھی یا میری بیگم بھی مجھ سے نہیں پوچھ سکتی کہ ووٹ کس کو دوں گا یہ ایک نجی معاملہ ہے میں جس کو بہتر سمجھوں گا اس کو دوں گا.ووٹ کو خود ساختہ ذہنی حد بندیوں سے مبرا ہو کر استعمال کریں.تبہی تو پڑھے لکھے اہلِ فہم دانش مند اور غریب دوست حکمرانوں کے حصول کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا.
115