414

والدین کی مرضی کے خلاف شادی کرنے والی لڑکی کا انجام

روشنیوں کے اس دور مین نوجوان لڑکے لڑکیاں شادی کے معاملے میں اپنی من مرضی کرتے ہیں وہ والدین کی مرضی کو اپنے پاس سے بھی بھٹکنے نہیں دیتے ہیں والدین کو اس وقت اپنی اولاد کی شادیوں کا علم ہوتا ہے جب لڑکا دلہن اور لڑکی دولہا لے کر گھر میں داخل ہوتے ہیں حالانکہ والدین اپنی اولاد کیلیئے جو فیصلہ کرتے ہیں اس میں اولاد کا محفوظ مستقبل شامل ہوتا ہے پیار محبت اور عشق کے بھوت کے نتیجے میں ہونے والی شادیوں کے نتائج بہت بھیانک نکلتے ہیں اور بعض دفعہ جان لیوا بھی ثابت ہوتے ہیں

ایسا ہی ایک درد ناک واقعہ کلرسیداں کے نواحی گاؤں شاہ باغ کے قریب آراضی بانڈی میں پیش آیا ہے جہاں پر شوہر نے اپنی بیوی کو ڈنڈوں کے وار سے قتل کر ڈالا ہے اسماء نورین اپنے والدین کی واحد بیٹی اور چار بھائیوں کی اکیلی اور لاڈلی بہن تھی وہ تحصیل کہوٹہ کے نواحی گاؤں نڑھ کی ڈھوک کرلی کفلے کے رہائشی رسالت حسین کی بیٹی تھی والدین اور بھائی اس پر اپنی جان نچھاور کرتے تھے اکیلی بیٹی اور بہن ہونے کی وجہ سے اس کو بہت زیادہ لاڈ پیار ملتا تھا جب تھوڑی بڑی ہوئی تو اسے گاؤں کے ہی ایک پرائمری سکول میں داخل کروا دیا گیا جہاں سے اس نے پانچویں تک تعلیم حاصل کی جب جوانی کی عمر کو پہنچی تو والدین جس طرح سب والدین کو علم ہوتا ہے کہ بیٹیاں پرائی ہوتی ہیں والدین بچی کے بہتر مستقبل کے خواب دیکھنے لگ گئے

لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا اسی دوران گاؤں کے ایک شرافت علی نامی لڑکے جس کا ماضی اور حال جرائم سے بھرا پڑا ہے اور وہ پہلے سے شادی شدہ اور بچوں کا باپ بھی ہے نے اسماء کو اپنے جال میں پھنسا لیا والدین اور بھائیوں نے اسماء کو ہر ممکن سمجھنانے کی کوشش کی اور شرافت علی کے جھوٹے دعووؤں کو بے بنیاد ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن اسماء کے مقدر میں تباہی و بربادی لکھی جا چکی تھی جس وجہ سے اس کو اپنے والدین کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا حتی کے وہ وقت بھی آ گیا کہ اسماء نے والدین،بھائیوں سے چھپ کر شرافت علی سے شادی کر لی شادی کے ساتھ ہی شرافت علی کلرسیداں شاہ باغ کے قریب آراضی بانڈی میں کرائے کے مکان میں رہنے لگ گیا

جب والدین اور برادری والوں کو اس شادی کا علم ہوا تو والدین اور بھائیوں نے اسماء سے تمام تعلقات ختم کر دیئے اور اس کے ساتھ تمام روابط بھی ختم کر ڈالے اس شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی اسماء کے شوہر شرافت علی جس کی پہلے بھی ایک بیوی موجود تھی نے اسماء سے آنکھیں پھیرنا شروع کر دیا ہے وہ اپنی پہلی بیوی کے باتوں میں آ کر اسماء سے لرائی جھگڑا کرنے لگ گیا جس کی اطلاع کسی زریعے سے اسماء نے اپنے والدین تک پہنچائی لیکن والدین بھائی جو پہلے ہی بہت بڑے صدمے سے دوچار ہو چکے تھے نے اس کو جواب دیا کہ تم خود جان بوجھ کر بہت بڑی غلطی کر چکی ہے اور اب اس کی سزا بھی تم خود ہی بھگتو

اسماء ہر آئے روز زندگی کے نئے عذاب میں پھنستی گئی اس دوران اس پر کافی دفعہ تشدد وغیرہ کیا گیا لیکن اسماء اب بلکل بے بس ہو چکی تھی سوائے برداشت کرنے کے اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا وہ دل ہی دل مین اپنے آپ کو کھائے جا رہی تھی اور کسی معجزے کے انتطار میں بیٹھی رہی کہ شاید اس کے شوہر کو اس پر کوئی ترس آ جائے لیکن شوہر کے مظالم دن بدن بڑھتے گئے ان بے رحم حالات میں زندگی کے چار برس بیت گئے والد والدہ اپنی بیٹی کے مقدر کو روتے رہے ایک بیٹی کی جدائی کا غم صرف وہی جان سکتے ہیں گو کہ ان کی بیٹی نے بہت بڑی غلطی کی تھی لیکن والدین بھائی پھر بھی اس کے انتظار میں رہے وہ اس انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اللہ پاک کب ان کی بیٹی، بہن سے ملائے گا

لیکن کیا پتہ تھا کہ ملاقات زندہ اسماء سے نہیں بلکہ موت کی چارپائی پر ہو گی بہر حال دوسری طرف اس کا شوہر اپنی پہلی بیوی کی اشیر باد سے اسماء کو ٹھکانے لگانے کی کوشش میں مصروف رہا لیکن اس کو کوئی اچھا موقع مل نہیں رہا تھا آخر کار وہ دن بھی سامنے آ گیا جس کی بنیاد چار سال پہلے رکھ دی گئی تھی اتوار کی رات اسماء کے شوہر نے موقع غنیمت جان کر اس کو موت کی نیند سلا دیا اور خود ہی اس کے والدین کو فون بھی کیا کہ اسماء فوت ہو گئی ہے والدین اور بھائیوں پر یہ خبر آگ کی طرح ثابت ہوئی بد قسمت والد رسالت حسین کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ تھانہ کلرسیداں میں درج ہو چکا ہے لیکن ملزم تا حال گرفتار نہیں ہو سکا ہے

اس پوری کہانی سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے نوجوان لڑکے لڑکیاں جو والدین کی مرضی کے خلاف شادیاں کرتے ہیں ان کے نتائج بھی اسماء کی طرح کے نکلتے ہیں اور وہ شرافت علی نے جس نے ایک بے گناہ کو مبینہ قتل کیا خود اور اپنی پہلی بیوی سمیت قتل کے مقدمہ میں پھنس گیا اور اس کے پہلی بیوی سے تین بچے والد کے جیتے جی یتیم ہو کر رہ گئے ان کا مستقبل بھی اندھیرے میں ڈوب گیا ہے دو خاندان اجڑ گئے اگر اسماء اپنے والدین کی بات مان لیتی اور شرافت علی جو پہلے ہی شادی شدہ تھا وہ اسماء نورین کو ورغلاتا نہ تو ان کے ساتھ یہ المیہ پیش نہ آتا اللہ پاک نوجوان لڑکے لڑکیوں کو اپنے والدین کی فرمان برداری کی توفیق عطاء فرمائیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں