پروفیسر محمد حسین
عصر حاضر کے نوجوانوں میں ایک بڑا مرض وقت ضائع کرنا ہے نوجوانوں میں کام محنت اور جد وہ جہد کا جذبہ ختم ہوتا جا رہا ہے فضولیات ہوٹل بازی اور ادھر ادھر وقت ضائع کرنا نوجوان طبقہ کی عادت ثانیہ بن چکی ہے وقت کی قدرو قیمت ان کے ذہن سے غائب ہو چکی ہے حق تو یہ تھا کہ اپنے دینی اور دنیاوی فائدے میں وقت کو صرف کیا جاتا اپنے لیے اور اپنے وطن و ملت کے لیے کوئی مفید ترین کام انجام دیا جاتا لیکن اس کا تصور ہی ختم ہو تا جارہا ہے صحت اور فرصت دو ایسی نعمتیں ہیں جن کی قدرو قیمت بالخصوص نوجوان طبقہ سے اٹھتی جا رہی ہے واقعہ یہ ہے کہ جب انسان و کو صحت و تندرستی میسر ہوتی ہے تو یہ تصور بھی نہیں ہوتا کہ بیماری بھی آسکتی ہے یہ تو بہت ہی بڑے دھوکے والی بات ہے کہ ابھی نوجوان ہیں کیا عمر بیت گئی ہے کہ ابھی سے ٹھیک کاموں میں لگ جائیں ؟ابھی ذرا مزے اڑا لیں پھر توبہ کر لیں گے نوجوان طبقہ کو علم ہی نہیں کہ قیامت کے دن جب تک جوانی کا حساب کتاب نہ دیں گے قدم نہ ہلا سکیں گے عصر حاضر کا ایک ہنگامہ خیز مخرب اخلاق اور ایمان و اقدار کش فتنہ نوجوانوں میں فلمیں دیکھنے کی عادت ہے کسی قصبہ یا شہر میں سینما ہال جانے والوں کا اندازہ لگایا جائے تو مسلمان نوجوانوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ ملتی ہے فلم دیکھنا ایک فیشن بن چکا ہے دل بہلانے کا ایک نادر فارمولہ ایجاد کیا گیا ہے بلکہ آج غیرت مند مسلمان نہایت شان و شوکت سے خواتین کو سینما ہالوں کی زینت بناتے ہیں حد تو یہ ہے کہ فلم بینی کم سن بچوں میں وبا کی طرح پھیل رہی ہے سن شعور سے قبل ہی وہ بری طرح فلم بینی کے شکنجے میں آچکے ہوتے ہیں والدین اور گھر کے ذمہ داران ان کی جیب گرم کر کے اس برائی میں برابر کے شریک ہوتے ہیں سینما کے برے اثرات اب کسی سے مخفی نہیں رہے یہی فلمیں جرائم سکھاتی ہیں انسان میں بد خلقی،بد کرداری ،بے حیائی،بے شرمی ،محنت و عمل سے دوری ،بے غیرتی ،مجرمانہ ذہنیت اور بے راہ روی جیسی مذموم خصلتوں کو جنم دیتی ہیں نشرو اشاعت کے ذرائع کا ایک خطرناک پہلو اور سنگین نتیجہ فحش لٹریچر اور رسائل کا سیلاب ہے عام شاہراوں ،گلی کوچوں ،ریلوے اسٹیشنوں اور بس اسٹینڈوں کے بک سٹال فحش لٹریچر سے بھرے پڑے ہیں عریاں اور نیم عریاں تصاویر رسائل کا لازمی حصہ بن کر رہ گئی ہیں نیند سے اٹھنے کے بعد نوجوانوں کی اولین نظر اپنے فحش رسائل و مضامین پر پڑتی ہے جن میں ہیجان انگیز تصاویر اور مضامین ہوتے ہیں فلمی رسائل اور مضامین پڑھ پڑھ کر نوجوان طبقہ طرح طرح کے ذہنی امراض کا شکار ہے اس نے بے راہ روی کی تمام حدود کو پار کر لیا ہے ذہنی و فری عیاشی اس کی زندگی کا حصہ بن چکا ہے حقیقت یہ ہے کہ فحاشی و عریانی اور بے راہ روی کو فروغ دینے میں ان رسائل نے وہ سب کچھ کر دکھایا ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہمارے بہت سے دین دار گھرانے بھی اس آفت سے اپنے دامن کو نہ بچا سکے نیا تعلیم یافتہ طبقہ تو اس کو روشن خیالی اور آزادی کا ایک بنیادی عنصر تصور کر تا ہے کہ گھر کا ہر چھوٹا بڑا ہر طرح کے رسائل اور اخبارات کا مطالعہ کرے سگریٹ نوشی بڑی تباہ کن عادت ہے بچہ بوڑھا جوان ہر ایک اس کا شکا ر ہے سگریٹ نوشی کے ذہنی جسمانی اور مالی نقصانات کا اندازہ لگانا مشکل ہے یہ سراسر اسراف اور فضول خرچی ہے اس میں کسی طرح کا کوئی فائدہ نہیں سینہ کے امراض میں سگریٹ نوشی کا بڑا دخل ہے کینسر جو نہایت خطرناک مرض ہے اس کا ایک بڑا سبب یہی سگریٹ نوشی ہے اس سے کھانسی اور بسا اوقات دم گھٹنے کا عارضہ پیش آجاتا ہے اور اس کی بد بو سے دوسروں کو بھی اذیت ہوتی ہے عصر حاضر کا ایک بہت بڑا المیہ کھیل کود ہیں ورزش کھیل شرعا ممنوع نہیں لیکن کھیل کو مقصد زندگی بنا لینا اسلامی اصول کے ساتھ نہ صرف یہ کہ آہم آہنگ نہیں بلکہ متصادم ہے آج ملکی اور عالمی سطح پر کھیلوں کے نام پر نوجوان طبقہ کو محنت و عمل جد و جہد اختراع و تخلیق کے میدان سے دور رکھنے کی بھیانک سازش ہو رہی ہے یہ کھیل انفرادی اجتماعی اور ملکی ہر سطح پر حد درجہ خطرناک اور ضرر رساں ہیں انفرادی سطح پر نوجوان طبقہ اپنی ذہنی صلاحیتوں ،جسمانی استعداد اور فکری لیاقت و اہلیت کو غارت کر رہا ہے کھیل کھیل نہیں بلکہ مقصد حیات بن چکا ہے اس کی زندگی کا ہر لمحہ کسی مشہور کھلاڑی کی خاک پا حاصل کرنے کی فکر میں گزرتا ہے کچھ کھیل تو اس قدر گراں ہیں کہ مالدار طبقہ بھی اس کا پیٹ بھرنے سے قاصر ہے کھیل کا یہی جذبہ نوجوانوں کو چوری اور ڈکیتی کی دہلیز پر لاکھڑا کرتا ہے ان کھیلوں میں شرعی آداب و رعایت تو دوری کی بات ہے کھلے عام شرعی احکام تو ڑ ے جارہے ہیں بارہا دیکھا گیا ہے کہ مسجد سے متصل میدان میں میچ ہو رہا ہے وہیں اذان و جماعت ہوں رہی ہے کھیل کا ماتیک اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ چیخ رہا ہے نماز ادا کرنی مشکل ہوتی ہے کھلاڑی مسجد میں کیا آئیں گے بہت سے بظاہر دینداروں کی نمازیں بھی انہی کھیلوں کی نذر ہوجاتی ہیں بعض کھیلوں کے دوران پورا معاشرہ ٹوٹ پڑتا ہے کاروبار زندگی ٹھپ ہو کر رہ جاتے ہیں حکومتیں ان کھیلوں پر بے تحاشا دولت بہاتی ہیں ان کی خاطر بے جا اسراف اور تیاری ہوتی ہے یہ سب کچھ خصوصا ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی نوے فیصد آبادی غربت سے نیچے کی سطح پر زندگی گزارتی ہے پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں تعلیم کے وسائل نہیں ضروریا ت زندگی سے محروم ہیں لیکن کھیل کود کے لیے ان حکومتوں کو ٰخزانہ قارون آاتھ آجاتا ہے ان کھیلوں کی تاریخیں مقرر کرنے میں خاص طور پرمشرقی اور اسلامی ممالک میں اوقات امتحان کو دانستہ طور پر مدنظررکھا جاتا ہے یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ طلبہ اپنی جدو جہد اور محنت و مشقت سے امتحانات میں اعلی نمبر حاصل کر کے اپنی صلاحیت و استعداد کا ثبوت دیں اور تعلیم کی مد میں خرچ ہونیوالی بے بہا دولت کا حق ادا کریں خدمت وطن و ملت کے اہل بنیں سارا وقت انہی کھیلوں کے دیکھنے کی نذر ہو جاتا ہے رات رات بھر ٹی وی پر ٹکٹکی باندھے کھڑے رہنے کے بعد وہ ذہنی اور جسمانی طو ر پر نڈھال ہو جاتے ہیں اور پھر امتحانات میں کامیابی کے لیے دوسرے کامیاب ذرائع کی تلاش میں لگ جاتے ہیں ذرا سوچئیے آخر اس تعلیمی ضیاع کی کوئی حد بھی ہو گی؟ کیا ذمہ داران اس پر توجہ دیں گے یانئی نسل کو کھیل کود کی نذر کر دینے کا قوم تہیہ کر چکی ہے؟
296