314

نقاشِ پاکستان چوہدری رحمت علی

چوہدری رحمت علی 16نومبر1897ء میں ضلع ہوشیارپور،تحصیل گڑھ شنکر کے گاؤں موہراں میں حاجی چوہدری شاہ محمد کے ہاں پیدا ہوئے۔

آپ نے 1912ء میں سینداس اینگلو سنسکرت ہائی سکول جالندھر سے میٹرک،1915ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے اور 1918ء میں پنجاب یونیورسٹی سے بی اے کا امتحان پاس کیا

۔اسلامیہ کالج میں بزمِ شبلی کی بنیاد رکھی اور صرف اٹھارہ سال کی عمر میں بزمِ شبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کی تجویز پیش کی۔

اسلامیہ کالج میں تعلیم کے دوران ہی آپ مشہور زمانہ پیسہ اخبار اور منشی محمد دین فوق کشمیری کے اخبار کشمیر گزٹ میں ملازمت کی اور مسلمانوں کے الگ وطن کے حق میں کئی مضامین تحریر کئے

جس کی پاداش میں آپ کو کشمیر گزٹ سے الگ کردیا گیا۔آپ 1918ء تا 1923ء کے دوران ایچی سن کالج لاہور میں لیکچرار کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے

یہاں پہلے نواب بہاولپور کے بیٹے اور مزاری خاندان کے بچوں کے استاد بھی رہے۔آپ 1923ء سے 1925ء تک لاء کالج پنجاب یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم رہے مگر امتحان میں شریک نہ ہوسکے

30 اکتوبر 1930ء میں اعلٰی تعلیم کے حصول کیلئے انگلستان چلے گئے اور 26جنوری 1931ء میں عمانویل کالج لندن میں داخلہ لیا جون 1932ء میں لاء ٹرائپوس کا امتحان پاس کیا۔

چوہدری رحمت علی نے برصغیر کے مسلمان طلباء پر مشتمل ایک تنظیم پاکستان نیشنل موومنٹ قائم کی اور اسی تنظیم کے پلیٹ فارم سے 28جنوری 1933ء کو عیدالفطر کے روز ایک کتابچہ Now or Never یعنی اب یا کبھی نہیں شائع کیا

جس میں مسلمانوں کیلئے علٰیحدہ وطن نام پاکستان تجویز کیا۔یہ لفظ آپ نے مسلم اکثریتی علاقوں سے اخذ کیا یعنی پ سے پنجاب، ا سے افغانیہ یعنی شمال مغربی سرحدی علاقہ، ک سے کشمیر اور ستان سے بلوچستان،اس لفظ کا اردو میں مطلب پاک لوگوں کی سرزمین بھی بنتا ہے۔

آپ نے 8جولائی 1935ء میں برطانوی پار لیمنٹ کے ارکان کو کُھلے خط میں 1935ء کے آئین پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا

۔چوہدری رحمت علی نے 1935ء میں اپنی کتاب پاکستان پاک قوم کا آبائی وطن کے نام سے شائع کی اور 1936ء میں ہفت روزہ پاکستان شائع کرنا شروع کیا۔آپ نے 1937ء سے 1939ء کے دوران فرانس، جرمنی،امریکہ اور جاپان کے دورے کئے

اور پاکستان کے قیام سے متعلق عالمی راہنماؤں سے گفتگو فرمائی۔آپ فروری 1940ء میں کراچی تشریف لائے اور 22مارچ 1940ء کو پاکستان قومی تحریک کی سپریم کونسل سے خطاب کیا.

البتہ 23 مارچ کے جلسہء لاہور میں شریک نہ ہوسکے۔ چوہدری رحمت علی نے پاکستان کے علاوہ صدیقستان، فاروقستان، عثمانستان، حیدرستان، بانگستان، معینستان، ماپلستان،نصارستان،صفیستان کے نام سے نو مسلم ریاستوں کا خاکہ بھی پیش کیا

۔آپ قیامِ پاکستان کے بعد 6اپریل 1948 کو لاہور آئے اور اقوامِ متحدہ کے نام ایک مراسلہ تحریر کیا جس میں جس میں ہندوستان میں رہ جانے والے پانچ کروڑ مسلمانوں کے تحفظ کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا

.یکم اکتوبر 1948ء کو آپ واپس کیمرج چلے گئے۔آپ نے کشمیر کے بغیر ملنے والے پاکستان پر آخری کتابچہ لکھا جس کا عنوان تھا پاکستان یا پاستان آپ کو 29 جنوری 1951ء کو نمونیہ ہوگیا جس کے بعد انہیں ایولین نرسنگ ہوم میں داخل کروایا گیا جہاں 3فروری 1951ء کو آپ کا انتقال ہوگیا

آپ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کیلئے کوئی مسلمان دستیاب نہ ہونے کی بناء سے آپ کی میّت سترہ روز سرد خانے میں پڑی رہی بالآخر چوہدری رحمت علی کے استاد مسٹر ویل بورن نے ایک مصری طالب علم محمد عزت ہندیہ سے نمازِ جنازہ پڑھوایا آپ کے جسدِ خاکی کو 20 فروری 1951ء کو تین بجے کیمبرج کے عیسائی قبرستان میں قبر نمبر 8380/B میں امانتاً دفن کیا

گیا مگر آج 73 برس گزرنے کے بعد بھی آپ کی میّت کو اپنے وطن لاکر پورے اعزاز کے ساتھ دفن نہ کیا جاسکا۔میری حکومتِ وقت سے اپیل ہے کہ نقاشِ پاکستان کی میّت کو اپنے ملک میں لاکر دفن کیا جائے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں