ایس ایس پی مظفرآباد کی جانب سے تھانوں کے ایس ایچ اوز کو ہدایت دی گئی ہے کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور تمام گاڑیاں ضبط کی جائے۔ مرکزی صدر انجمن تاجران سردار افتخار فیروز نے اس حکم کو لوگوں کو تنگ کرنے اور پیسے کمانے کا ایک نیا دھندہ قرار دیتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ اگر کوئی بھی گاڑی بند کی گئی تو شدید ردعمل عمل دیا جائے گا۔ کوئی گاڑی ضبط نہیں ہوگی۔ یہ متنازعہ خطہ ہے اور لینڈ لاک بھی ہے۔ یہ گاڑیاں پاکستان سے آتی ہیں، وہاں سے یہاں تک پہنچنے کی اجازت بھی یہی ریاست دیتی ہے اور پھر یہاں غریب لوگوں کے خلاف ہر کچھ سال بعد آپریشن کا ڈرامہ شروع کر کے انہیں لوٹا جاتا ہے اور لاکھوں کا نقصان کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سوات، سابق فاٹا، بلوچستان اور چترال کیا پاکستان کی آئینی حدود میں شامل ہیں۔ جہاں یہی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں قانونی طریقے سے گزشتہ 78 سال سے چل رہی ہیں۔ وہاں آج تک اس بارے میں کوئی قانون کسی کو یاد نہیں آیا۔
جموں کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے، یہاں جو لوگ کسٹم پیڈ گاڑیاں خریدتے ہیں ان کی فی گاڑی لاکھوں روپے ادا کی گئی کسٹم ڈیوٹی میں سے ان کی فلاح پر کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ اس بھاری ٹیکس کا کوئی شمار نہیں ہوتا، وہ حکومت پاکستان کے خزانے میں جاتا ہے۔ اس لیے ہم ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کہ متانزعہ علاقے میں فیڈرل ٹیکسیشن کا سلسلہ بند کیا جائے، مقامی حکومت جو ٹیکس لیتی ہے، وہ عوامی فلاح پر خرچ کیے جائیں۔
این ایف سی ایوارڈ میں ہمارا کوئی حصہ ہی نہیں ہے تو ہم سے وفاقی حکومت کس بات کے ٹیکس وصول کرتی ہے۔ یہ جبری اور سامراجی ٹیکس ہیں۔ ان کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف کارروائی کا ڈرامہ فوری بند کیا جائے۔ تمام نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو ایکسائز کے محکمے کی طرف سے رجسٹر کرنے کی پالیسی بنائی جائے اور نمبر جاری کیے جائیں۔ مقامی سطح پر ٹوکن ٹیکس بھی وصول کیا جائے۔ جرائم کا بہانہ بنا کر آپریشن کرنے کا ڈرامہ بند کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور انتظامیہ خود نہیں چاہتے کہ اس خطے میں امن ہو۔ یہ جان بوجھ کر ایسے اقدامات کرتے ہیں کہ لوگ احتجاج پر مجبور ہوں اور افراتفری کا ماحول بنے۔
