مَل بیٹھی آں راہ

چوکپنڈوڑی شہر تحصیل کلرسیداں کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اپنے محل وقوع کے اعتبار سے پوٹھوہار کا مرکز کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے مشرق میں کلرسیداں اور کشمیر کے ملحقہ علاقے ہیں جہاں پوٹھوہاری ثقافت کا رنگ ہے اسی طرح مغرب میں روات، چک بیلی خان اور اسکے محلقہ علاقہ ہیں۔ شمال میں کہوٹہ و کوہسار جبکہ جنوب میں مندرہ،گوجرخان اور دولتالہ کے علاقے آباد ہیں۔ یوں راقم ”پوٹھوہار کا دل چوکپنڈوڑی“ کہنے لکھنے میں کوئی مبالغہ نہیں سمجھتا۔

محل وقوع تو اک ایسا نکتہ ہے کہ جس میں علاقہ و اہلیان علاقہ کا کوئی ذاتی کمال شامل نہیں ہوتا البتہ اگر محل وقوع کی مرکزیت ادب و ثقافت کی مرکزیت میں بھی اپنا سکہ جما دے تو یہ اس علاقہ کے لوگوں کا کمال ہے۔ دیکھا جائے تو پوٹھوہاری ادب و ثقافت کے درخشاں ستارے کہ جن کی ضوفشانی سے چمنستان ادب روشن ہے انکا ادبی و ثقافتی تعلق بہرصورت”تاج ثقافت چوکپنڈوڑی“ سے ہونا روز روشن کی طرح عیاں ہے۔

وادی سندھ کی ثقافت میں مسلمانوں نے اسلام کے اشاعت کے لیئے ”قوالی“ کو فروغ دیا کہ جس میں ”قول“ کی روشنی میں شاعری کو موسیقی کیساتھ پیش کیا جاتا تھا اور دعوت و تبلیغ کا کام کیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے۔ پوٹھوہاری ادب ثقافت میں قوالی نے اک نیا قدم رنگ جمایا۔ پوٹھوہاری ثقافتی موسیقی یعنی شعرخوانی کی بنیادی شاعری یعنی ”چوبرگہ“ کو قوالی میں پیش کرکے اک انقلاب برپا کردیا ہے۔”چوبرگہ“ کو قوالی میں پیش کرنے والے قوال خرم شہزاد ملک قوال و ہمنواؤں کا ”ڈیرہ فنکاراں“ بھی ”تاج ثقافت چوکپنڈوڑی شہر” کے ماتھے کا جھومر ہے۔ انٹرنیٹ کے سماجی روابط کے پلیٹ فارمز پر ہر طرف ”مل بیٹھی آں راہ” کا طوطی بول رہا ہے۔

”مل بیٹھی آں راہ” اس وقت سماجی رابطے کی پلیٹ فارموں کا ٹاپ ٹرینڈ بنا ہوا ہے۔ بالخصوص خرم ملک آفیشل یوٹیوب چینل جو اس مئی میں ہی بنایا گیا اس پر پہلے نعت شریف ”گل تیرے کرم تے مکدی پئی” اپلوڈ کیا گیا۔ یاد رہے کہ نعت شریف کے شاعر مرحوم مہربان چہلا ہیں جن کا تعلق موہڑہ داروغہ سے تھا اور پھر 22 مئی کو مزمل عباس ملک کی معصوم ہاتھوں کے ذریعے ”مل بیٹھی آں راہ” اپلوڈ ہوا۔ اس یوٹیوب چینل پر وقت تحریر تک چند دنو ں میں 8 سو سے زائد سبسکرائب اور53ہزار سے زائد ویوز ہو چکے ہیں۔ آج کی یہ تحریر”مل بیٹھی آں راہ“ کے قوال و ہمنواء اور شاعر کے تعارف پر مرکوز ہے لیکن ابتدائیہ طویل ہونے کیوجہ سے تعارف مختصر رہے گا۔

سب سے پہلے اس خیال کے خالق اور شاعر کا مختصر تر تعارف، مختصر تر اس لیئے کہ موصوف یعنی راجہ واجد اقبال حقیر نہ صرف شاعری و مشاعرہ کیوجہ سے پوٹھوہار کے جانے پہچانے اوع لاثانی ستارے ہیں بلکہ پنڈی پوسٹ کے قارئین انکی تحریریں گاہے گاہے پڑھتے رہتے ہیں۔ راجہ واجد اقبال حقیر کا تعلق دکھالی راجگان کہوٹہ سے ہے۔ مکمل نام راجہ واجد اقبال جنجوعہ ہے اور حقیر تخلص کرتے ہیں یوں واجد حقیر کے نام سے مشہور ہیں۔”مل بیٹھی آں راہ“ کی شاعری راجہ واجد اقبال حقیر کے ذہن کی اعلی تخلیق ہے۔ واجد حقیر نے شاعری کی باقاعدہ تربیت پوٹھوہار کے معروف شاعر باوا جمیل قلندر آف کلرسیداں سے حاصل کی۔ واجد حقیر استاد جمیل قلندر مرحوم کے ایسے ہونہار شاگرد ثابت ہوئے کہ پوٹھوہاری ادبی دنیا نے واجد حقیر کو ”عکس قلندر” و ” سالار پوٹھوہار” کے خطاب سے نوازا ہے۔

خرم شہزاد ملک قوال جنہوں نے بہترین انداز میں اپنے ہمنواؤں کیساتھ اس نئی طرح کا بیج ڈالا۔ جناب کا تعلق ڈھوک عزیزال شاہ باغ سے ہے۔ بنیادی طور پر خطاط ہیں اور ساؤنڈ سسٹم کا کام بھی کرتے ہیں۔ ساؤنڈ سسٹم کے کام میں ہی ان کے اندر کا موسیقی والا فنکار جاگا اور یوں گھڑا نوازی و طبلہ،ڈھولک نوازی کا سلسلہ ڈھائی عشرہ قبل شروع ہوا۔ اسی دوران اتفاقی طور پر گیارہ سال قبل قوالی کے لائن پر آئے اور گجرات کے بشارت علی خاں قوال کے شاگردی اختیار کی اور قوالی کی دنیا کو باقاعدہ اپنے ذوق کا حصہ بنا لیا۔ یاد رہے کہ خرم شہزاد ملک خاندانی موسیقار یا قوال نہیں ہیں۔ شاعری کا ذوق بھی رکھتے ہیں اور اپنا کلام بھی گاتے ہیں۔کے ایس ایم قوالی کے گروپ کے روح رواں اور استاد ہارمونیم نواز مبشر شہزاد بٹ ہیں۔ جو اپنی معصوم طبیعت کیساتھ گروپ کے تمام معاملات کو بطریق احسن چلاتے ہیں۔مبشر شہزاد کا بنیاد تعلق کمبیلی کلرسیداں ہے۔مبشر شہزاد 21 سال سے ہارمونیم نوازی کر رہے ہیں۔ ہارمونیم نوازی میں مہارت کے لیئے مبشر شہزاد نے دینہ جہلم کے معروف ہارمونیم نواز استاد امجد علی خاں کی شاگردی اختیار کی۔ خرم شہزاد اور مبشر شہزاد نہ صرف اچھے موسیقار و گائیک ہیں بلکہ بہترین دوست بھی ہیں۔ قوالی میں ہارمونیم کیساتھ ساتھ طبلہ کا بنیادی کردار ہے۔ ”مل بیٹھی آں راہ” کی ریکارڈنگ میں طبلہ نوازی کا فن نوجوان طبلہ نواز شاہد علی خان کا ہے کہ جن کا تعلق بورے والا وہاڑی سے ہے۔ شاہد علی خاں کا بچپن طبلہ سے کھیلتے گزرا۔ فن کی معراج حاصل کرنے کے لیئے استاد الاساتذہ استاد دلدار خاں ( ساتھی طبلہ نواز استاد نصرت فتح علی خاں مرحوم) کی شاگردی اختیار کی۔ یقینا شاہد علی خاں استاد دلدار خاں کے شاگرد ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں۔ قارئین اگر ابھی تک آپ نے ”مل بیٹھی آں راہ ” نہیں سنی تو اک بار سنیں یقینا پھر آپ بار بار سنیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں