212

مسلمانوں کو آپس کے اتحاد پر زور دینا چاہیے

ضیاءالرحمن ضیا/متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اور اس سلسلے میںانہوںنے تمام ضروری اقدامات بھی مکمل کرلیے ہیں ۔ اسرائیل سے بائیکاٹ کے تمام قوانین منسوخ کر دیے گئے ہیں اور اب اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان باقاعدہ کمرشل فلائٹس کا سلسلہ بھی چل نکلا ہے ۔ اسرائیل ایک سراسر ناجائز ریاست ہے اور مسلمانوں کے علاقوں پر قبضہ کر کے بنائی گئی ہے ۔ اس ریاست کے قیام کے لیے لاکھوںمسلمانوں کا خون بہایا گیا ۔ جس کی وجہ سے مسلم دنیا نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہیں کیے اور اسے ناجائز ریاست قرار دیتے ہوئے اس تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔ لیکن رفتہ رفتہ بعض مسلم ممالک چھوٹے موٹے ذاتی مفادات یا کسی بڑے ملک جیسے امریکہ وغیرہ کی لالچ یا دباو¿ میں آکر اسے تسلیم کرتے رہے ۔ چند مسلم ممالک نے اسے تسلیم کر لیا ہے جبکہ بہت سے ممالک نے ابھی تک اس ریاست کو تسلیم نہیں کیا جن میں پاکستان سرفہرست ہے ۔ چند دیگر مسلم ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے خواہاں ہیں لیکن ابھی تک ایسا کوئی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں کر پائے لیکن ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی وہ یہ کام کرتے جا رہے ہیں ۔اسرائیل کی اس ناجائز ریاست کو خالصتا نظریاتی بنیادوں پر قائم کیا گیا اس لیے اس سے ہمارے اختلافات بھی نظریاتی ہیں۔ پاکستان بھی ایک نظریاتی ریاست ہے جس کی نظریاتی بنیاد صرف اور صرف اسلام ہے ۔ پاکستان کو اسلام کے نام پر وجود ملا اور اس دین متین کے نام پر یہاں کے باشندوں کو آزادی جیسی دولت نصیب ہوئی۔ اس ملک کی بقا بھی اسلامی نظریات کی حفاظت کرنے میں ہے ، پاکستان کے دیگر ریاستوں کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی نظریہ اسلام کار فرما ہے اور ہم نظریاتی بنیادوں پر دیگر ریاستوں سے تعلقات استوار کرتے ہیں ۔ ریاستوں کے انہی تعلقات میں ایک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کا معاملہ بھی ہے ۔ پاکستان نے آج تک اسرائیل کو تسلیم نہیںکیا اور موجودہ حکومت سے قبل کسی نے اس ناجائز ریاست کو تسلیم کرنے کی گفتگو تو دور کی بات کسی نے اس بارے میں سوچا بھی نہیں لیکن موجودہ حکومت کے کچھ اراکین نے اس حوالے سے گفتگو کی بلکہ ایک خاتون رکن اسمبلی عاصمہ حدید نے تو برملا اسرائیل کو تسلیم کرنے پر زور دیا اور اسلامی حوالوںکو انتہائی بے دردی سے تروڑ مروڑ کر پیش کیا۔ بہر حال اسرائیل کے ساتھ ہمارے تعلقات خالصتاً نظریاتی بنیادوں پر ہیں ۔ کچھ لوگ یہ کہتے ہیںکہ ہمیں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لینے چاہیئیں کیوں کہ اس سے ہمیں فائدہ ہو گا ۔ ہمیں اسرائیل کی بلا وجہ دشمنی مول نہیں لینی چاہیے ، ہمارا اس نے کیا بگاڑا ہے ، ہماری اس سے کیا دشمنی ہے ؟ ہمیں اپنے نفع نقصان کو دیکھتے ہوئے اس ملک سے تعلقات استوار کرنے چاہیئیں ۔ اس قسم کے اعتراضات یا دلائل اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے ہمارے مفکرین کی طرف سے سننے کو ملتے رہتے ہیں ۔ ان حضرات کی خدمت میں نہایت مو¿دبانہ گزارش ہے کہ جناب نظریہ بھی کوئی چیز ہوتی ہے ، دین ، مذہب و ملت بھی کوئی حیثیت رکھتے ہیں ، اسلامی اخوت و بھائی چارہ بھی اسلام کے اہم موضوعات ہیں ۔ کیا ہم اپنے تھوڑے سے نفع اور نقصان کی خاطر ان سب کو پس پشت ڈال دیں ۔ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے سے ہم کتنے معاشی فائدے حاصل کر لیں گے ؟ ہمیں کیا ترقی حاصل ہو جائے گی ؟ دنیا کے تمام ممالک سے تعلقات میں سے کون سی ایسی چیز رہ گئی ہے جو ہمیں اسرائیل سے ہی ملنی ہے ؟ اس کے سوا دنیا کا کوئی دوسرا ملک ہمیں نہیں دے سکتا۔ ہم اپنی ناقص پالیسیوں اور اپنی غلطیوںکی وجہ سے ترقی نہیں کر پا رہے اس میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی خرابی کا کوئی قصور نہیں ہے ۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر کے ہم کوئی مادی فائدہ تو حاصل نہیں کر سکیں گے کیونکہ ہمارے ماضی کے تجربات اسی پر شاہد ہیںکہ ہم نے امریکہ سے تعلقات قائم کیے اس سے فائدہ ہم کیا حاصل کرتے ہم نے اپنے نقصانات ہی کیے ۔ دیگر کئی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات ہیں لیکن ہم وہیں کے وہیں ہیں ہم کسی سے کوئی کام نہیں نکلوا سکے۔ اس لیے اسرائیل کے ساتھ بھی تعلقات قائم کر کے ہم اپنے نظریات کا گلہ گھونٹنے کے سوا کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے ۔ اس سے صرف امت مسلمہ کے مفادات کو شدید دھچکا لگے گا اور جو ممالک اسرائیل کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈالے ہوئے ہیں ان کا حوصلہ بھی پست ہو جائے گا۔ لہٰذا ہمیں اپنے نظریات کی حفاظت کرنی چاہیے اور ان پر قائم و دائم رہتے ہوئے جو تھوڑی بہت تکالیف یا پریشانی آ ئے تو اس پر صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے ۔ ہمیں چھوٹے چھوٹے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے امت مسلمہ کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔ اگر تمام مسلمان مل جل کر ایک ہی موقف اپناتے اور اسرائیل کے خلاف کمر بستہ ہو جاتے تو آج اسرائیل کی جرا¿ت نہ ہوتی کہ وہ مسلم ممالک کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتالیکن مسلم ممالک کی اپنی کمزوریوںنے انہیں طاقت دی ۔ اب متحدہ عرب امارات نے امت مسلمہ کے مفادات اور اسلامی نظریات کا گلہ گھونٹ کر اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کیے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس سے وہ کتنا فائدہ حاصل کرتے ہیں اور فلسطینیوں کو کتنا ریلیف دلاتے ہیں؟ غیر مسلموں بالخصوص یہود و نصاریٰ سے کسی بھی طرح کی خیر کی توقع رکھنا تو بالکل فضول ہے اور یہی ہمارے دین اسلام کی تعلیمات ہیں ۔ لہٰذا مسلمانوں کو آپس کے اتحاد پر زور دینا چاہیے ، اخوت ، محبت اور بھائی چارے کو فروغ دینا چاہیے ۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں