132

مردہ یزید کا زندہ نظام

عبدالحنان راجہ

کربلا کے ریگزاروں سے شعور کا جو پودا پھوٹا وہ تا قیام قیامت انسانیت کو سلامتی، امن و آشتی اور انصاف کی چھاوں دیتا رہے گا. میرا سوال تھا کہ یزید مر گیا مگر اسکا نظام زندہ کیسے. منکسر المزاج علامہ صفدر کریمی کے جواب نے سوچوں کا دھارا ہی بدل ڈالا. کہنے لگے کہ کبھی سوچا کہ آج تک کسی نے حسین ہونے کا دعویٰ کیوں نہیں کیا !!!!
اپنے عنوان کے جواب کی تلاش کے لیے باب علم کے در پہ دستک دیتا رہا اس دعا کے ساتھ کہ شرح صدر عطا ہو آخر مفاہیم کا دروازہ کھلا کہ اندر کے یزید کو دفن کئے بغیر باہر کے یزید دفن نہیں ہوں گے. کہیں ہمارے انفرادی روئیے، معاشرتی رجحانات، سیاسی اقدامات اور طرز حکومت اسی نظام کی آبیاری تو نہیں کر رہے. افراد سے معاشرہ تشکیل پاتا ہے اور ہر فرد کی کچھ ذمہ داریاں کہ اقبال کی زباں میں ” ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ * کے مصداق مسلم گھرانے میں پیدا ہو کر مسلمان ہونے والوں کی فکری، نظریاتی، عملی، اور افعالی اساس بھی حسینی بنی. اس کا جواب امت کے ہر فرد اور بالخصوص ہر پاکستانی کو تلاش کرنا ہے. اپنے گرد کے لوگوں، رشتہ داروں، دوستوں اور معاشرے حتی کہ حکمرانوں کو ہدف تنقید بنانے سے پہلے ہمیں اپنے کردار کو حسینی خوشبو سے معطر کرنا ہو گا. خود کو بدلے بغیر معاشرے میں انقلاب کا خواب، خواب تو ہو سکتا، تعبیر ممکن نہیں ہے. کیا وجہ کہ ہم ان وجوہات کا تذکرہ نہیں کرتے کہ جو نواسہ رسول کے قتل ناحق کا سبب بنیں. ہر ظلم، ہر جفا، یر ستم اور ہر الم برداشت ، مگر بیعت یزید نہ کی. بقول شاعر ” دنیا کا ہر یزید اسی غم میں مر گیا، کہ سر مل گیا حسین کا بیعت نہیں ملی “
سوچنے کا مقام کہ کیا محض دکھ اور ماتم سے حسینی کہلوایا جانا زیبا ہے. بقول اقبال ” کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو، کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی “. صرف ظالمانہ آمرانہ، استحصالی رویوں اور طرز حکومت کو یزیدی قرار دینا درست نہیں بلکہ انفرادی سطح پر بددیانتی، ظلم کا ساتھ، دھوکہ، دینی اقدار کی پامالی، قطع تعلقی، ظلم پر خامشی، ذاتی مفادات، جھوٹ، فریب، اقربا پروری اور سب سے بڑھ کر شعائر اللہ اور شعائر رسول کی بے ادبی بھی اسی زمرہ میں آتی ہے. طالب اقبال محترم ندیم پراچہ نے صائب مگر کیا حقیقت بیان کی کہ حسینی نظام کی راہ میں سب سے بڑی روکاوٹ ہمارا وجود ہے. کہ ہم اپنے اور اپنے گھر میں تو نافذ نہیں کر سکتے اور بات انقلاب کی اور یزیدی نظام کے خاتمہ کی کرتے ہیں. خواتین اہنی محافل کو خانوادہ رسول کی عفت مآب، عصمت و طہارت اور بندگی کی پیکر سیدہ کائنات اور زینب کے تذکروں سے تو سجاتی ہیں مگر کیا ہماری خواتین کا بودوباش، لباس اور طرز معاشرت ان کے اسوہ کے مطابق ہے. اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو بھئی یہی تو یزیدی نظام کا عکس ہے. بے راہ روی کا زور اور معاشرہ بے حیائی کے چنگل میں کس حد تک پھنس چکا ہے. اس کا ادراک ہر ذی شعور کو مگر آنکھیں بند، الیکٹرانک و سوشل میڈیا بے حیائی کے فروغ میں پیش پیش ہمارے لباس اور فیشن اغیار کو بھی شرمندہ کرنے والے، تعلیمی ادارہ جات میں منشیات اور بے حیائی عام، یقین نہیں تو اپنی جامعات کے احوال دیکھ لیں. ابھی تو دو کے ہی کھلے ہیں کہ انگلیاں دانتوں میں دبنے لگیں. ڈراموں کا حیا سوز کلچر نئی نسل کو کس ڈگر پہ لے جا رہا ہے یہ تو کبھی سوچا ہی نہیں. کیا یہ سچ نہیں کہ سادہ لوح مسلمان اور کچھ استثنا کے ساتھ سبھی طبقات نے بے حسی، اپنے رویوں اور اپنے معاملات سے مردہ یزید کو زندہ رکھا ہوا ہے.
معاشی یزیدیت آج بھی کرپشن، صاحبان اقتدار کی عیاشی، قومی و عوامی وسائل پر قبضہ،عوام کے استحصال، حکومتی اختیارات و سرکاری وسائل سے ذاتی کاروبار کو وسعت، مدمقابل اور حزب مخالف کے معاشی استحصال کی صورت میں قائم. جبکہ سیاسی و حکومتی یزیدیت نے کاروبار مملکت کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے. یہ نظام ریاست میں پوری طرح زندہ و توانا دکھائی دیتا ہے. ریاستی مشینری کے ساتھ ماڈل ٹاؤن میں قتل عام، 250 سے زائد لوگوں کو زندہ جلایا جانا، شاہ رخ اور آیے روز اس جیسے ہزاروں قتل ناحق، قاتلوں کا دندناتے پھرنا، طاقتور کی ٹکر سے وردی میں کھڑے پولیس اہل کار کی موت، مذہب اور فرقہ کے نام پر دہشت گردی، غربت و افلاس کے ہاتھوں خودکشیاں. تعلیم یافتہ اور ذہین نوجوانوں کا تلاش روزگار میں مارے مارے پھرنا یزیدی نظام کے مظاہر ہی تو ہیں. اس نظام میں اسمبلیوں میں اصلاحات اور بلز پاس ہوتے ہیں تو اشرافیہ کے مفادات اور عیاشیوں کے. جبکہ عام آدمی دو وقت کی روٹی اور بجلی کے لیے دربدر جبکہ حکمرانوں کے کتے بھی ٹھنڈی گاڑیوں میں. اس نظام میں تبدیلی کے لیے اٹھنے والی ہر آواز کو بزور طاقت دبایا جاتا ہے. صاحبان اقتدار کے ہر ناجائز اور غیر قانونی اقدام کو سند قبولیت ملتی ہے اور سرکاری مشینری اور وسائل حکمرانوں اور ان کے خاندانوں کی ہوس پوری کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں. اقتدار پر چند خاندان قابض اور انتخابات محض ڈھونگ اور چہرے بدلنے کے لیے اور یہ سب کچھ حسینیت کی ضد. جس طرح دور یزید میں عدل ناپید تھا تو آج بھی اس کی حالت قابل رحم کہ فیصلہ جات جرم نہیں مجرم دیکھ کر کیے جاتے ہیں. قتل، ڈکیتی، اربوں کی کرپشن و منی لانڈرنگ کے ملزمان اور طاقتور مجرموں کی بریت معمول. حتی کہ وہ برسر اقتدار اور کچھ منتظر. مگر عام شہری کی زندگی معمولی انصاف کے حصول میں گذر جاتی ہے. اسی نظام میں چند یوم پہلے آسمان نے وہ منظر بھی دیکھتا ہے کہ دارالخلافہ میں غریب ریڑھی بان کے خلاف سی ڈی اے کا قانون تجاوزات بھر پور قوت سے حرکت میں آتا ہے اور اسے پوری قوم اس مجبور کو پابند سلاسل اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے. اس قانون کو وزیر اعظم سے لیکر پٹواری تک کی قانون شکنی نظر نہیں آتی کہ طاقتور اور غریب کے لیے الگ الگ قوانین کے اطلاق کی بشارت آقائے دوجہاں نے صدیوں پہلے دے دی تھی. پورے معاشرے پر ظلم کا راج مگر اس کے باوجود واعظوں اور ذاکروں کے کہے کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ یہ زمین یزید لعین کے وجود سے پاک ہو چکی مگر جب اپنے احوال، معاشرے اور اپنی ذات پہ نظر پڑتی ہے تو یزید کے مرنے کا یقین نہیں آتا. اب یہ حسینی فکر رکھنے والوں کے چیلنج نہیں کہ یزید کو تو ہم نہ مار سکے کہ وہ ہماری دسترس اور دور میں نہ تھا مگر کیا ہم اس کے قائم کردہ نظام کو زمیں بوس نہیں کر سکتے اور اگر اس کی بھی جرات اور طاقت نہیں تو پھر ہمیں حسینی ہونے کے دعوی سے دستبردار ہو جانا چاہیے. کہ حسینیت تقریریں کرنے، مجلسیں پڑھنے، سبیلیں لگانے، لنگر تقسیم کرنے اور ماتم کرنے کا نام نہیں بلکہ جرات و استقامت سے آمرانہ، ظالمانہ اور استحصالی نظام کے خلاف ڈٹ جانے اور پامال ہوتی اسلامی اقدار کو بچانے کا نام ہے.

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں