پروفیسر محمد حسین
آج جس معاشرہ میں ہم زندگی گزار رہے ہیں بظاہر اس کو ایک ترقی یافتہ معاشرہ تصور کیا جاسکتا ہے دھوں اڑاتی فیکٹر یا ں ‘دندناتی گاڑیاں ‘شور مچاتی مشینیں ‘تیز رفتار زندگی اور ایک انگلی کے اشارے پر پوری دنیا سے رابطہ اور پوری دنیا کی معلومات لیکن اتنی ترقی اور اتنی آگاہی کے باوجود دن بدن ہماری زند گیوں میں بے سکونی ‘ بے آرامی اور افراتفری کیوں بڑھتی جارہی ہے اس قدر ترقی اور مشینی زندگی بھی ہمیں وہ سکون کیوں نہیں دے پارہی جس کا خواب انسان صدیوں سے دیکھتا آرہا ہے وہ حقیقی چین وآرام اور سکون آخر ہے کیا ؟ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم حقیقی ترقی اور آسائش سمجھ رہے ہیں وہ محض ایک دھوکہ اور خام خیال ہے انسانی ذہن درحقیقت اس وقت پر سکون ہوتا ہے اور سچی خوشی محسوس کرتا ہے جب وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتا ہے جیسے کہ ایک بچہ ‘اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کے درمیان اپنے آپ کو محفوظ پاکر خوش اور مطمئن ہوتا ہے بلکل یہی نفسیات ایک بالغ انسان کی بھی ہے کہ جب وہ اپنے اعتبار کے لوگوں کے درمیان ہوتا ہے تو خود کو محفوظ اور پر سکون پاتا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک معاشرہ کو مرد عورت پر مشتمل ایک مکمل نظام کے ساتھ تخلیق کیا عورت اور مرد دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لازم وملزوم قرار دیا عورت کو ماں بنایا تو باپ بنا کر ماں کے رشتے کی تکمیل کی بہن پیدا کی تو مرد کی شکل میں بھا ئی پیدا کر کے اس کا محافظ بنا یا عورت کے روپ میں بیوی بنائی تو شوہر کی شکل میں ایک ایسا مرد تخلیق کیا جو جو کہ حکمران ہونے کے ساتھ سارے کنبے کا کفیل بھی ہوا یوں ایک طرف عورت کو ماں بہن بیٹی اور بیوی کے روپ میں بہترین خدمت گار ہمدرد اور غم گسار بنا یا تو مرد کی تخلیق ایک باپ بھائی بیٹے اور شوہر کے روپ میں کی جو کہیں حکمران کہیں محافظ اور کہیں کفیل کے طور پر عورت کے لئے لازم وملزوم ہوا لیکن افسوس کہ ہمارا معاشرہ خلاف شریعت ‘خلاف فطرت اور خلاف نفس روش اختیار کرتا جارہا ہے اور ہم سب یورپ اور مغرب کی اندھی تقلید میں اندھا دھند دوڑ رہے ہیں بے پردگی ‘بے حیائی اور اپنے محرموں کی بجائے نامحرموں کے ساتھ بے جا اخلاط کو ترقی اور آزادی نسواں تصور کر کے اپنے ماحول ‘اپنے معاشرہ اور اپنے ملک کو تباہی وبربادی کی طرف لے جارہے ہیں عورت کی آزادی کا نعرہ لگانے والے ہر شخص سے میرا یہ سوال ہے کہ عورت اپنے آپ کوخوش ‘پرسکون اور محفوظ کب تصورکرتی ہے جب اس کی جان ومال اور عزت وآبرومحفوظ ہوگی یاخطرہ میں ہوگی ؟کوئی بھی عورت صرف اپنے محرم رشتوں کے درمیان ہی خوش رہ سکتی ہے یہی ہماری نفسیات کہتی ہے اور یہی ہمارا دین اسلام کہتا ہے لیکن بات دراصل یہ ہے کہ کوتا ہ فہم لوگ آزادی نسواں کا اصل مفہوم نہ توسمجھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی سجھنا چاہتے ہیں اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو فطرت انسانی اور خواہش نفسانی کی صیح تربیت کرتا ہے غلط اور درست کا فرق بتاتا ہے مذہب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ عورت کی آزادی اس کی عزت واحترام جتنا ہمارے مذہب میں ہے دوسرے مذاہب اس سے کوسوں دور ہیں اسلام دین فطرت ہے اور یہ ہماری روحانی جسمانی اور نفسانی تمام ضروریات کو بدرجہ اتم پورا کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ بڑی تیزی سے اس دین میں داخل ہورہے ہیں اور مغربی دنیا کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے جبکہ دوسرے مذاہب میں عورت کی جان و مال اور عزت وآبرو محفوظ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ مغربی دنیا میں عورتوں سے متعلق جرائم کی شرح اسلامی ممالک کے مقابلہ میں کہیں زیادہ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اسلامی اقدار کے عین مطابق معاشرہ اور قوانین میں اصلاحات کریں اور اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ عورت اور مرد معا شرہ میں یکساں مقام تو ضرور رکھتے ہیں لیکن ان کی ترجیحات ان کی ضروریات اور ان کے مقامات الگ الگ ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ جس قدر مردکو تعلیم وترقی اور صحت وتندرستی کی ضرورت ہوتی ہے اسی قدر عورت کو بھی اس معاشرہ میں تعلیم وترقی ‘آرام وسکون اور تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے تو پھربجائے اس کے کہ ہم نام نہاد اسلام دشمن این جی اوز کے آلہ کاربن کر عورت کو مظلومیت کی تصاویر بنا دین اور مردوں کو اور معاشرہ کو ظالم جادوگر بنا کر پیش کریں ضروری اور اہم یہ بات ہے کہ ہم ایک اسلامی معاشرے سے ہم آہنگ اقدار کی تشکیل نو کے لئے آواز اٹھائیں جہاں عورتیں اور مرد الگ الگ آزادانہ اپنے امور کی انجام دہی کو ممکن بنائیں اور اس کے لئے اقدامات کچھ ناممکن نہیں ہیں سعودی معاشرہ اس کی جیتی جاگتی اور زندہ مثال ہے جہاں خواتین کے لئے الگ سکول کالج یونیورسٹی ہسپتال مساجد میں الگ جگہیں مختص ہیں خواتین کی مخصوص اشیاء کے الگ خواتین بازار ہیں جہاں خواتین آزادانہ گھوم پھر سکتی ہیں ذراسوچئے مرد اور عورت کا غیر فطری غیر شرعی اخلاط معاشرے کو اور عورت کو غیر محفوظ بناتا ہے جو نہ صرف گھروں اور زندگیوں کو تباہ کر سکتا ہے ملکہ معاشرے کی تباہی کا باعث بھی بنتا ہے مخلوط نظام زندگی کا تصور ہمارے ہاں رائج کرنے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے اور میڈیا اس بات میں سب سے آگے اپنا کردار ادا کر رہا ہے اور اس کوآزادی نسواں اور ترقی جان کر یورپ اور مغرب کی اندھی تقلید میں ہم بھی سرگرداں ہیں سکول کالج ہسپتال دفاتر کون سی جگہ ہے جہان مرد اور عورت کا بے جا اخلاط نظر نہیں آتا مخلوط نظام تعلیم کے نام پر نچوں اور بچیوں کی زندگیوں کوا خلاقی تباہی کے دہانے پرلا کھڑا کیا گیا ہے درسگاہیں تہذیب وادب کا گہوارہ بنے کی بجائے بد اخلاقی بے حیائی اور ناچ گانے جیسی خرافات کا منبع بن کر چکی ہیں ترقی یافتہ ممالک کا بام عروج اخلاقی ‘انسانی اور معاشرتی زوال بن چکا ہے اور یہ سب کچھ مخض شریعت اور فطرت کے خلاف چلنے کی وجہ سے ہوا ہے اور ہمیں ترقی اور آزادی کے نام پر بے راہ روی ‘فحاشی اور اخلاقی پستی کے قصرمذلت میں دھکیلا جارہا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی آزادی اور ترقی سے محفوط فرمائے (امین)
182