مختار احمد سگھروی سے میری ابتدائی شناسائی تدریسی ماحول میں ہوئی۔ رشتہ احترام اور قربت کا تھا مگر بالمشافہ ملاقات کا شرف پنجاب کلچرل مشاعرے میں ضلع اٹک کے کونسل ہال میں نصیب ہوا۔ جب کلام اور گفتگو کا تبادلہ ہوا تو یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ تدریس کے ساتھ ساتھ وہ شعر و ادب کے بھی شناور ہیں۔ اس مشاعرے میں محترمہ ساجدہ عفت سے بھی ملاقات ہوئی، یوں دونوں شخصیات کی محبت اور شفقت نے مجھے اپنے حصار میں لے لیا۔ بعدازاں سگھروی صاحب نے اپنی دوسری تصنیف—جو مکمل طور پر غزلیات پر مشتمل ہے—

انتہائی مان اور محبت سے مجھے بذریعہ ڈاک ارسال کی۔ اس مجموعہ کلام کو پڑھ کر میرے ذہن میں جو پہلا عنوان ابھرا وہ تھا:“وفا کی راہ کا بے چین مسافر۔”سگھروی صاحب کی زندگی کے نشیب و فراز نے ان کی شاعری کو گہرے رنگ دیے ہیں، اور ان کے بیشتر اشعار اپنی شریکِ حیات محترمہ ساجدہ عفت کے نام ہیں۔ وہ اپنی شاعری کے ذریعے جیسے یہ کہنا چاہتے ہیں:
میں بکھر گیا ہوں سمیٹ لو، میں اجڑ گیا ہوں سنبھال لو۔اردو غزل کی روایت فارسی غزل سے چلتی ہوئی ولی دکنی اور پھر بڑے بڑے شعرا کے ذریعے آج سگھروی خاندان تک پہنچی ہے۔ بیتے لمحے یاد آئے کے مطالعے سے موضوعات کی رنگا رنگی اور فکری تنوع قاری پر عیاں ہوتا ہے۔ چونکہ یہ ابتدائی شاعری ہے، لہٰذا اس میں لہجہ دھیمہ اور محتاط ہے۔ ذاتی محرومیاں، جدائی کا کرب اور شریکِ حیات کی یاد اس شاعری کا بنیادی محرک ہیں۔
کتاب کے صفحہ 34 سے حمد باری تعالیٰ کا آغاز ہوتا ہے، جہاں شاعر رب کائنات کے حضور سوالیہ انداز میں اپنی ذات کی کھوج لگاتے ہیں:
کیا میں، کیا ہے ذات تیری؟
ہر ایک لب پہ بات تیری
اسی طرح نعتیہ کلام میں رنج و آلام، پسِ دیوار اور آہ و رسا جیسی تراکیب کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ دوسری نعت میں وہ ربِ کریم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے انہیں اپنے در پر بلایا۔ ان کے نعتیہ قطعات میں صنعتِ تضاد، صنعتِ تکرار اور خوبصورت قافیہ بندی جاذبِ نظر ہے۔
جہاں تک غزل کا تعلق ہے، اے حمید کے مطابق یہ صنف دو طرح پر تقسیم ہے: مسلسل اور غیر مسلسل۔ سگھروی صاحب کی بیشتر غزلیں مسلسل غزل کی بہترین مثال ہیں، جیسے:
مدت کے بعد گزرے جو ان کی گلی سے ہم
ہر گام پر الجھتے رہے بے کلی سے ہم
گزری یادیں، پرانے رستوں کی خوشبو اور بیتے لمحوں کی کسک ان کے کلام میں بار بار جھلکتی ہے۔ ایک غزل میں وہ سوال کرتے ہیں:
تمہارے جلوؤں میں کھویا ہوا تھا لیکن
بتاؤ تم کہ وہ موسمِ بہار تھا کیا تھا؟
اسی طرح ایک اور غزل میں معاشرتی برائیوں پر طنزیہ وار کرتے ہیں:
سونے جیسی تیری کلائی
کنگن پھر بنواتے کیوں ہیں؟
صفحہ 81 کی ایک غزل اپنی شریکِ حیات کے نام ہے، جس میں وہ اظہارِ محبت یوں کرتے ہیں:
ایک غزل تم نے مانگی ہے
نام تیرے دیوان کروں گا۔
مزاحیہ رنگ میں بھی سگھروی صاحب نے اپنی سنجیدگی برقرار رکھی ہے۔ ایک جگہ کہتے ہیں:
موبائل کی ٹوہ میں نہ رہتی وہ ہرگز
نہ مس کال آنے کا جنجال ہوتا۔
کبھی بھی نہ بیوی سے ہوتی لڑائی
نہ ایک ایک دن کا ماہ و سال ہوتا۔
مختصر یہ کہ مختار احمد سگھروی کی شاعری میں حمد و نعت، ہجر و وصال، کربلا کی یاد، وطن سے محبت اور ذاتی کیفیات کی جھلک نمایاں ہے۔ ان کے کلام میں فنی تکنیک، ہیت و آہنگ، صنعتِ تضاد و تکرار، سہ حرفی ردیف اور غیر مردف غزل کے استعمال نے ان کی علمی و ادبی صلاحیتوں کو واضح کر دیا ہے۔دعا ہے کہ ان کا یہ سفرِ ادب ہمیشہ وفا کی راہ پر قائم رہے اور ان کا کلام آنے والی نسلوں کے دلوں کو بھی اسی طرح چھوتا رہے۔ آمین
آنسہ مظہر انسی