عبدالجبار چوہدری
راجہ محمد خان نقیبی ایک ایسی شخصیت تھے جنھوں نے بیک وقت دینی و نیاوی میدانوں میں گراں قدر خدمات انجام دیتے ہوئے سرخرو ہوئے بلکہ کامیابی و کامرانی ان کے قدم چومے اوائل جوانی میں ہی مری کے سیدزادے سید احمد شاہ جو بابا لعل شاہ کے قریبی عزیز تھے ان کی خدمت میں مشغول ہو گئے ان کی چلہ کشی کے لیے ایک غار کی تعمیر میں دن رات ایک کیے رکھا جب غار تیار ہو چکی تو چالیس دانے چاول کے لیکر شاہ صاحب غار کے اندر متمکن ہو گئے ان کو صبح شام قہوہ و چائے اور ان کی خیریت معلوم کرنے کی ڈیوٹی مسلسل چالیس دن انجام دی کامیاب چلہ کشی کے بعدسید احمد شاہ کی شادی کا مرحلہ در پیش آیا ان کی شادی کے تمام اخراجات بیڑا اٹھایا کلرسیداں کے ہر دکاندار سے ضرورت کی چیزیں اپنے ذمہ پر خرید کر دیں پھر اس قدر مقروض ہو گئے کہ کہ اس قرضہ کے خاتمہ کے لیے سرکاری نوکری کرنا پڑی اور تعینانی ملک کے سب سے دور اسٹیشن کوئٹہ ہوئی مسلسل تین سال نوکری کرتے رہے اور جتنے پیسے گھر والوں کو بھیجتے اتنے ہی دکانداروں ،گھر اور شاہ صاحب کے گھر کی کفالت کے لیے بھی علاقہ میں شاہ صاحب کی طرف اٹھنے والی انگلی کو وہیں پر ہی مروڑ دیتے غرض کہ شاہ صاحب نے واپس اپنے آبائی علاقہ جانے کا ارادہ کر لیا ایک سیدزادہ کے لیے عملی خدمت کا مظاہرہ کر چکے تھے جب ولی کامل حضرت خواجہ فقیر صوفی نقیب اللہ شاہ ؒ چشتی قادری کی خدمت عالیہ میں بعرض بعیت ہوئے تو پیر و مرشد نے ارشاد فرمایا کہ راجہ محمد خان ہم نے تمہارا پہلا نوکری بھی ڈال دیا ہے راجہ محمد خان کی خوشی کی انتہا نہ رہی خواجہ خواجگان قبلہ نقیب اللہ شاہ کے خلیفہ حضرت صوفی ولایت علی شاہ کی معیت میں ہر وقت حاضری کو معمول بنا لیا اورتمام عمر اس میں فرق نہ آنے دیا لنگر غوثیہ پر ڈیوٹی کے لیے اپنے آپ کو وقف کیا آخری سانس تک اس میں ناغہ نہ آنے دیا قبلہ صوفی ولایت علی شاہ کی محبت میں ایسا فیض پایا کہ صلح نامہ کرانے میں کبھی جھجھک محسوس نہ کرتے بڑے سے بڑے افسر کے پاس اس طرح چلے جاتے جیسے اس سے کئی سالوں سے واقفیت رکھتے ہوں جب بھی جرگہ میں بیٹھے تو اس کو پایہ تکیمل تک پہنچا کر ہی دم لیا تمام عمر بیواوں،یتیموں اور بے سہارا لوگوں کے کاموں میں مشغول رہے صوفی الحاج ماسٹر محمد افضل نقیبی ہر دل و جا ن دور رہتے اور حاجی صاحب کی خدمت کو ہمیشہ مقدم رکھتے جب بڑھاپادستک دینے لگا تو اپنے حقیقی بیٹے استاد خالد مرحوم کو الحاج ماسٹر صوفی محمد افضل نقیبی کی خدمات کے لیے وقف کر دیا جواں سال بیٹے استاد خالد مرحوم اور پوتے عامر محمود کی موت نے راجہ محمد خان کو گہر ا لگاو لگایا اکثر دل گرفتہ رہتے آنکھیں ان کے ذکر سے تر ہو جاتی تھیں علاقہ سمیت ہر پیر بھائی کی خوشی غمی میں شریک ہونے کو فریضہ سمجھتے کثیر العیال کنبے کے اکلوتے سربراہ تھے پیرانہ سالی اور دل کے امراض کے باوجود کبھی سستی کا مظاہرہ نہ کرتے لنگر کی تیاری اور اس کی تقسیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ نظریاتی و جذباتی وابستگی تھے اس کی خاطر کسی بھی قربانی سے گریز نہ کرتے ذوالفقار علی بھٹو اور ب نظیر بھٹو سے جنون کی حدتک محبت تھی سابق ایم پی اے چوہدری خالد مرحوم اور چوہدری سلطان محمود مرحوم سے خصوصی تعلق تھے پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے مصروف عمل رہے سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے تنازعات کے تصفیہ میں تو کمال رکھتے تھے بہت سے لوگوں کو راضی نامہ کے ذریعے سزاوں سے بچایا پولیس کی دست برد سے محفوظ رکھا15مارچ 2018بروز جمعرات کے لیے کوچ کر گئے بروز جمعتہ المبارک سولہ مارچ دن گیارہ بجے ان کی نماز جنازہ میں اہلیان علاقہ سیاسی عمائدین اور وابستگان سلسلہ عالیہ نقیبیہ کا ایک سیلاب امڈ آیا ہر آنکھ اشکبار اور ہر ایک سوگوار تھا ۔
251