ماسٹر محبوب عالم‘ صابر و شاکر شخصیت 147

ماسٹر محبوب عالم‘ صابر و شاکر شخصیت

پچھلے کچھ عرصے سے کچھ شخصیات کا تذکرہ کرتا رہا لیکن اپنے ایک محسن کا تذکرہ رہتا تھا اب اپنے اس محسن کا تذکرہ اللہ کے حبیب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی مبارک زمین پر بیٹھ کر کرنے جارہا ہوں میرے اس محسن اور مہربان بھائی کا نام ماسٹر محبوب عالم ہے،

اپ 22ستمبر 1950 بھال یوسی چونترہ محمد بنارس کے گھر پیدا ہوئے، ان کے والد محترم زمیندار ہونے کے ناطے کھیتی باڑی کرتے تھے اور پڑھے لکھے نہیں تھے محبوب عالم نے جب آنکھ کھولی تو والدین کو سخت مشقت کرتے ہوئے پایا محبوب عالم بہت ہی ذہین، سنجیدہ، اور خاموش طبع تھے

ابتدائی تعلیم انھوں نے اپنے گاؤں بھال سے حاصل کی نویں کلاس میں انھوں نے ادھوال ہائی سکول میں داخلہ لیا گاؤں میں کوئی پڑھا لکھا بھی نہیں تھا تین افراد میٹرک پاس تھے وہ روزگار کے سلسلے میں گاؤں سے باہر تھے، گاؤں میں بجلی بھی نہیں تھی اس کے باوجود محبوب عالم چراغ کی روشنی میں رات کو سکول کا ہوم ورک مکمل کرتے تھے

کوئی گائیڈ کرنے والا بھی نہیں تھا ساتھ ساتھ گرمیوں کی چھٹیوں میں سڑک بن رہی تھی اس پر مزدوری بھی کی اس کے باوجود انھوں نے میٹرک کا امتحان 1967میں ادھوال ہائی سکول سے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا ایف ایس سی کا امتحان سرگودھا بورڈ سے پاس کیا بی اے کا امتحان بھی اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا 1972 میں پی ٹی سی کا امتحان ہائی سکول جاتلی سے پاس کیا

اس کے بعد بطور پرائمری سکول ٹیچر کے تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگے ان کی پہلی پوسٹنگ گورنمنٹ پرائمری سکول سالار گاہ عثمان کھٹڑ تحصیل ٹیکسلا میں ہوئی 14 نومبر 1974 کو پروموشن ہوئی اور پروموشن کے بعد گورنمنٹ ہائی سکول ادھوال میں بطور سائنس ٹیچر تعینات ہوئے آپ کے مضامین فزکس، کمیسٹری اور بائیولوجی تھے آپ بہت ہی محنتی استاد تھے

مختصر سے عرصے میں بچوں کی تعداد میں اپ۔کی وجہ سے بڑا اضافہ ہوا سکول کے ہیڈماسٹر غلام رسول تھے جو بہت ہی اچھے منتظم تھے

قدیمی درسگاہ تھی سکول کا رزلٹ بہت اچھا تھا مسلسل ماسٹر محبوب عالم کی نیک نامی میں اضافہ ہورہا تھا روزانہ دس کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کر کے سکول پہنچتے اور بچوں کا زیرو پیریڈ لیتے جو ان کی سروس کا مستقل حصہ رہا ماسٹر محبوب عالم جہاں رہے

انھوں نے اسمبلی سے پہلے دسویں کلاس کے بچوں کا زیور پیریڈ لگایا اس کے 8 ستمبر 1983 ان کا پروموشن گریٹ سولہ میں ہوا اور ماسٹر محبوب عالم کی پوسٹنگ جھٹہ ہتھیال ہائی سکول میں ہوگی یہاں بھی ان کی محنت کا ثمر تھا دوسرے سکولوں کے بچوں نے جھٹہ ہتھیال ہائی سکول میں داخلہ لے لیا آپ زیرہ پیریڈ بھی لیتے سردیوں میں دسویں کے بچوں کو سکول میں رات کو رکھ کر امتحان کی تیاری کرواتے آپ کے مضامین کا رزلٹ مسلسل سو فیصد تھا

آپ کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا بچے اور ان کے والدین آپ کے ہاتھ چومتے تھے پھر علاقے کی ایک مقامی سیاسی شخصیت نے آپ کی پوسٹنگ بھال میں کروا دی بچوں کے لئے شدید جھٹکا تھا بھال میں آپ 1991 سے 2010 تک رہے اب آپ کا پروموشن ہوچکا تھا آپ بھال ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے

اس طرح اس یک غریب کسان کا بیٹا مزدور سے گریٹ 18 میں پروموٹ ہوگیا تھا ماسٹر محبوب عالم کو پڑھانے کا جنون تھا جب وہ پڑھا رہے ہوتے تو دوسرے اساتذہ کا وقت لے لیتے ان کو کلاس سے نکالنا مشکل ہوتا تھا وہ سکول کے مالی بھی تھے خود پودوں کی گوڈی کرتے پودوں کو پانی دیتے خود اپنے ہاتھ سے پودے لگاتے ایک دفعہ سابق سی ای او قاضی طارق سکول کا وزٹ کیا جوں ہی مین گیٹ سے داخل ہونے تو محبوب عالم گلاب کے پودوں میں مٹی ڈال رہے تھے

آپ سے پوچھا میں ہیڈماسٹر سے ملنا تو محبوب عالم صاحب نے فرمایا میں ہی ہیڈماسٹر ہوں اس نے پوچھا مالی کتنے ہیں اور کہاں ہیں تو محبوب عالم صاحب نے فرمایا سر جب تھوڑا سا وقت ملے میں پودوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں یہ بھی مجھے بچوں کی طرح عزیز ہیں قاضی طارق صاحب کچھ ناراض ہوئے لیکن پھر محبوب عالم صاحب کے مرید بن گئے،محبوب عالم صاحب سکول کے ہیڈ ماسٹر، سکول کے مالی اور سکول کے چوکیدار بھی تھے

ان کے چار مضامین تھے وہ مستقل زیرہ پیریڈ لیتے تھے سردیوں میں میٹرک کے بچوں کو سکول رکھ کر رات کو تیاری کرواتے تھے آپ کی محنت کا تذکرہ روات سے لیکر تھانہ چونترہ کے گاؤں گاؤں میں تھا ان کے ہزاروں شاگرد ہیں جو مختلف شعبوں کے اندر گراں قدر خدمات انجام دے رہے ہیں

انھوں نے ڈھوک بدھال میں بچیوں کے لئے ایک ادارہ قائم کیا۔ جس میں نویں کلاس سے لیکر ایم اے تک بچیوں کو تعلیم دی جاتی تھی انھوں ایک باپ بن کر ہزاروں بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا بچیوں کے داخلے بھیجنا پھر جب پیپرز شروع ہوتے بچیوں کے ساتھ جاتے بچیاں پیپرز دیتیں تو باہر بیٹھ کر انتظار کرتے

جب پیپرز ختم ہوتے تو ان بیٹیوں کو لیکر واپس آتے پھر ان کو گھروں تک پہنچاتے ان کو الرجی اور دل کی تکلیف تھی کئی دفعہ شدید اٹیک ہوا پھر بھی سکول نہیں چھوڑا تھوڑا سا آرام آتا تو پھر سکول پہنچ جاتے دل کا بائی پاس بھی ہوا تھا

لیکن زندگی کے آخری سانس تک متحرک لائف گزاری کچھ بچوں کو گھر رکھ کر پڑھایا جو آج اہم حیثیت سے معاشرے میں رول ادا کررہیں ہیں 2010 سروس سے ریٹائر ہوگئے

لیکن پڑھانے کا عمل نہیں چھوڑا، وہ ہر فرد سے محبت کرنے والے انسان تھے میرے الیکشن 2013 اور الیکشن 2018 میں بھرپور رول ادا کیا میرے ساتھ گاؤں گاؤں گھومے وہ جماعت اسلامی یوسی چونترہ کے امیر بھی تھے لوگ ان کو پیروں جیسا مقام دیتے تھے

گاؤں کے ہر خیر کے کام میں آگے ہوتے، بے شمار یتیم بچیوں کی شادیاں کروائیں مسجد کے معاملات میں پیش پیش رہتے تھے آپنے گھر پر ماہانہ درس قرآن رکھتے بھرپور حاضری ہوتی تھی ان کے ڈاکٹر محمد کمال صاحب، چوہدری امداد علی مرحوم, راجہ فضل الحق مرحوم، ملک سپارس مرحوم، قاضی سلیم اصغر، ماسٹر محمد جمیل مرحوم، نیر علی، محمود عبداللہ، حاجی محمد اسماعیل مرحوم رحمہ اللہ اور اپنے اس چھوٹے بھائی سے جذباتی محبت کا رشتہ تھا

13 نومبر 2020 انھوں نے ڈھوک بدھال اپنے سکول میں میرا درس قرآن رکھا درس قرآن کے دوران میری بھی عجیب کیفیت تھی میں رونے لگا وہ بھی تو رہے تھے بچیاں بھی رورہی تھیں اس کے بعد کہنے لگے جی چاہتا آپ کے ساتھ گاؤں گاؤں جاکر دعوت دوں لیکن اب صحت اچھی نہیں اور اللہ کوئی اور فیصلہ۔ کرچکا تھا ہیں

وہ 21 نومبر 2020 اپنے خالق حقیقی سے جاملے ان کے جنازہ میں ہزاروں لوگ تھے سب کی آنکھیں اشک بار تھیں ان کے ایک ہی بھائی نازک حسین تھے بعد میں وہ بھی فوت ہوگئے ہیں ان کا ایک ہی بیٹا ہے

جو پاکستان آرمی میں ہے اس کے علاؤہ انھوں نے پورے خاندان کو اپنے پروں کے نیچے رکھا ہوا تھا ماسٹر حافظ محمد اکرم صاحب، اور تبسم شہزاد ان کے جانشین ہیں

اس طرح ایک ہمدرد، محبت کرنے والا انسان، خدمت کرنے والا، ہر فرد سے خیر خواہی کرنے والا انسان اپنے خاندان کا سرپرست سیکنڑوں بچیوں کو باپ بن کر پالنے اور پڑھانے والا انسان ہزاروں شاگردوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والا اپنے خالق حقیقی سے جاملا اللہ تعالیٰ ان کی قبر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں