214

قوم کے معمار سٹرکوں پر خوار

محترمہ معصوم نگاہ ایم فِل اردو ہیں، درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں اور ایک باشعور و باوقار و باہمت بی بی ہیں۔ یہ محترمہ میری استاد رہی ہیں

، جب میں نے ایم اے،دو کیا تھا تو یونیورسٹی نے انہیں میری معلمہ مقرر فرمایا تھا۔ میں ان کی بہت ہی تکریم و تعظیم و احترام کرتا ہوں اور ان کی سربلند سچی اور سوھنی سنہری سوچوں کو سلام کرتا ہوں

۔ موصوفہ معصوم نگاہ صاحبہ نے کل مجھے فون فرمایا اور سلام دعا کے بعد فرماتی ہیں کہ مجھے تکلیف ہے اس بات کی کہ ہر بالغ و سمجھدار انسان کے روحانی ماں باپ یعنی اساتذہ کو سڑکوں پر نکلنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی ہے، پلیز آپ اس موضوع پر بھی لکھیں کہ آج جو استاد سڑکوں پر رل رہا ہے

یہ دیگر تمام شعبہ ہائے زندگی کے عوام کے لیے بھی انتہائی محترم و مکرم ہے اس لیے سب کو احتجاج کے لیے نکلنا چاہیے کیونکہ محکمہ تعلیم میں جو پرائیویٹائزیشن ہو رہی ہے کل کو دیگر ادارے بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ برادرم و محترم ناصر بشیر نے فرمایا تھا کہ:

اْستاد ہے پیشہِ پیغمبری کا نام
پہچاننا ضروری ہیاستاد کا مقام

شمشیرِ بے نیام نہ استاد پر اْٹھا
اپنی تباہیوں کا نہ کر آپ اہتمام

محترمہ معصوم نگاہ مزید فرماتی ہیں کہ یہ بڑے بڑے عہدوں پہ بیٹھنے والے اساتذہ سے پڑھ کر ہی ان عہدوں کے لائق ہوئے ہیں، کیا اساتذہ کے حقوق کے لیے ان سب کو نہیں نکلنا چاہیے

کہ یہ ہمارے روحانی والدین ہیں اور حکومت ان کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ ہم کیسے اساتذہ کو اس طرح سڑکوں پر خوار ہوتا دیکھ سکتے ہیں

، یہ سب دیکھ کر بڑی تکلیف ہوتی ہے جب ٹیچرز باآواز بلند بولتے ہیں کہ ”ہے باپ تمہارا سڑکوں پر ہے ماں تمہاری سڑکوں پر“۔ محترمہ معصوم نگاہ صاحبہ کی یہ ساری گفتگو سن کر دلی افسوس ہوا ہے،

میں ان کی ان سب باتوں سے صد فی صد اتفاق کرتا ہوں اور حکامِ بالا سے مطالبہ بھی کرتا ہوں کہ اساتذہ کے تمام تر مطالبات کو جانیں بھی اور مانیں بھی کیونکہ اساتذہ ہی ہر سماج کا ستون سمجھے جاتے ہیں

اور ممالک و اقوام کی ترقی و کامرانی کی کنجی کہلاتے ہیں لہذا اساتذہ کے جتنے بھی مسائل و مشکلات ہیں ان کا بہتر سے بہتر حل نکالنا لازم و ملزوم ہے۔

حکومت فوری طور پر نوٹس لے اور اساتذہ کو کوئی مثبت راستہ فراہم فرمائے۔ سوچنا تو یہ ہے کہ اساتذہ کا مستقبل کیا ہو گا جب حکومت نوکریاں دینے کی بجائے نوکریاں چھیننے کے درپے ہے

، اساتذہ کو اس حال میں دیکھ کر تمہارے دل نہیں دہلتے کیوں پتھر کے ہو گئے ہو۔؟ صد افسوس و ماتم کی ہماری ان حکومتوں اور اداروں نے ایک عالم و معلم کو غلام سمجھ رکھا ہے

اور تعلیم و شعبہ تعلیم کو تجارت بنا ڈالا ہے۔ پورے پاک و ہند برصغیر میں عہدِ موجود میں رباعی کے استاد شاعر نصیر زندہ جی مدظلہ فرماتے ہیں کہ:

ہوتی ہے روح کی ہلاکت پیدا
لالچ سے نہیں ہوتی فراست پیدا

جس علم کامقصود ہو دولت کاحصول
اس علم سے ہوئی ہے جہالت پیدا

میری محترمہ بڑی خالہ جی مرحومہ گلِ نرگس کی سب سے چھوٹی بیٹی بھی ایک پرائمری ٹیچر ہیں جن کا نام ہے کرن شہزادی جنہیں میں بچپن لڑکپن میں پڑھاتا بھی رہا ہوں جب یہ پہلی دوسری تیسری جماعت میں تھیں،گزشتہ دنوں میں اپنے گاؤں گیا تو دیکھا کہ اس کے بالوں میں چاندی اتر آئی ہے

اور چہرہ بھی زرد پیلا پڑ گیا ہے، اس بیچاری نے اس ٹیچری و چاکری کے چکر میں اپنا اس قدر برا حال بنا لیا ہے کہ دیکھ کر رونا آتا ہے۔ میں ایک ایسی ٹیچر کو بھی جانتا ہوں جو ڈبل ٹرپل ایم اے ہو کر بھی محض ایک پرائمری ٹیچر ہی ہے یعنی لیکچرار یا پروفیسر پروموٹ ہونے کا کوئی نظام ہی نہیں ہے

ہمارے اس نظام تعلیم میں، موصوفہ دائمی سر درد، بلڈ پریشر اور شوگر ایسی مشکل امراض میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی معمولی تنخواہ کے لیے اپنے چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں کے مستقبل کی خاطر آگ برساتی دھوپ گرمی اور شدید سردی میں بھی بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر سکول جاتی ہیں

۔ اگر آپ ان نون لیگی شوباز حکمرانوں کے ”کالے کرتوت“ کارستانیاں مفصل جاننا چاہتے ہیں تو کبھی پنجاب کے کسی ٹیچر سے پوچھیے گا۔ محترمہ تمثیلہ لطیف صاحبہ بھی ایک معتبر اور مدبر معلمہ ہیں جو اپنے طلبہ و طالبات کو اپنی اولاد سے بھی زیادہ پیار توجہ دیتی ہیں۔

جس قدر محنت و دیانت کے ساتھ تمثیلہ لطیف صاحبہ پڑھاتی ہیں پورے پنجاب میں شاید ہی کوئی اور معلم اس معیار و لیول پر پورا اْترتا ہو گا۔ ان کا دل اپنی کلاس کے ساتھ دھڑکتا ہے طلبہ و طالبات کے ساتھ بے پناہ محبت فرماتی ہیں خلوص و لگن سے پڑھاتی ہیں مگر انہیں بیس یا پچیس ہزار تنخواہ ملتی ہے

جس سے مکان کا کرایہ پورا ہوتا ہے نہ بجلی گیس کے بل۔ محترمہ تمثیلہ لطیف کٹھن پتھریلے راستوں کی مسافرہ ہیں جو راجہ بازار راولپنڈی کے ایک کمرے کے ایک نہایت ہی چھوٹے سے مکان میں نہایت ہی مشکل زندگی گزار رہی ہیں۔

ان کی بھوک اور غربت کی درد بھری داستان جان کر دل خون کے آنسو روتا ہے اور کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ میری نہ صرف کرتا دھرتاؤں سے بلکہ اس کے بھائی بہنوں یعنی اساتذہ سمیت آپ سب قارئین سے بھی پرزور اپیل ہے کہ خدارا اس مثالی معلمہ اور منفرد شاعرہ محترمہ تمثیلہ لطیف صاحبہ کی ضرور خبر لیں۔

میں آپ کو مکمل ذمہ داری اور ایمانداری سے بتلا رہا ہوں کہ معزز و سفید پوش فیملی کی اس بہن بیٹی نے مجھے سختی سے منع فرمایا تھا کہ پلیز آپ میری بھوک و غربت میرے حالات و معاملات اخباروں میں نہ لکھیے گا

لیکن میں نیک نیتی کے ساتھ اس کی مدد و مسیحائی کی ایک آس و امید سے لکھ رہا ہوں۔ بے شک اگر دلوں میں خوفِ خدا، رحم دلی اور خدا ترسی ہو تب کسی کا دل پسیجتا ہے اور سوچتا ہے

کسی کے لیے۔ آپ یقین کریں کہ محرومیوں، مایوسیوں اور اداسیوں کے سوا تمثیلہ لطیف کے ”پلے ککھ“ بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی وہ ایک بے مثال اور باکمال شاعرہ ہیں۔ تمثیلہ لطیف جی کے الفاظ میں:

ہوں مجرمِ حیات مگر یہ سزا نہ دو
عمرِ دراز کی مجھے تم یوں دعا نہ دو

مفلس کیحق میں آپکاانصاف خوب ہے
یعنی کہ مار ڈالو مگر آسرا نہ دو

محترمہ تمثیلہ لطیف صاحبہ الفانوس ایوارڈ، زرخیز مٹی ایوارڈ اور آزاد نفیا ایوارڈ یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ متعدد کتب کی مصنفہ بھی ہیں جن کے نام مندرجہ ذیل ہیں۔ کوئی ہمسفر نہیں ہے، اشک تمنا، دشت میں دیپ جلے، کیف غم۔ آخر میں محترمہ تمثیلہ لطیف جی کے چند متفرق اشعار حاضر خدمت ہیں:

سر پھری ہوا نے سب بجھا دیے چراغ
ساحلوں کی ریت پر جانے کیا لکھا گیا

مہر و ایثار و مروت کا قرینہ ہو جسے
ایسا انسان فرشتوں کی طرح ہوتا ہے
کیا خبر کون سیلمحے بدل دے فطرت

وقت انسان کیرویوں کی طرح ہوتا ہے
شکستہ حال شاعر ہی اس زمانے کو
خلوص و مہر و وفا کی کتاب دیتا ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں