اس وقت وطن عزیز میں جو انتشار افتراق،بدامنی افرا تفری کا دود دورہ ہے اس وقت ہمارا ملک جن خطرات سے دو چارہے اور ہمارا تعلیمی نظام جن مسائل کا شکار ہے اس صورتحال میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم جائزہ لیں کہ قومی یکجہتی میں تعلیم کا کیا کردار ہے۔ کہتے ہیں کہ متحدہ امریکہ قومی یکجہتی کی ایک بہترین مثال ہے اس وقت امریکہ کی کل آبادی چوبیس کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ اس آبادی کا ایک قلیل حصہ یہاں کے قدیم باشندوں (Red indions ) پر مشتمل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہر سال دنیا سے پانچ لاکھ کے قریب لوگ امریکہ میں آکر آباد ہوتے ہیں۔ ان تارکین وطن کا تعلق زیادہ تر یورپی ممالک سے ہیں جس میں برطانیہ، فرانس، جرمنی، اٹلی اور ہالینڈ وغیرہ شامل ہیں۔ یہ تارکین وطن مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ اِن کا تعلق مختلف مذاہب سے ہے ان کا مختلف ثقافتی اور تہذ یبی پس منظر ہے ان کی مختلف روایات ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود ان تارکین وطن کے بچے امریکہ میں چند سال قیام کے بعد ا پنے آپ کو فخر سے امریکی کہتے ہیں اپنی مادری زبان چھوڑ کر انگریزی زبان امریکن لہجہ میں بولنے لگتے ہیں۔ انگریزی تہذیب و تمدن کی ہر چیز کو اپناتے ہیں اور امریکی قوم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ یہ سارا عمل بذریعہ تعلیم پائے تکمیل کو یہ پہنچتا ہے۔ درس و تدریس کے ذریعے ہی قوم کے اندر قومی یکجہتی کا جذبہ بیدار کر کے اُن میں قومی یکجہتی پیدا کی جاتی ہے۔ اس کے برعکس اپنے ملک کی مثال لیجئے 1947ء میں ہم ایک قوم تھے اسی قومی جذبہ کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم نے آزادی حاصل کی ہم ایک نظریہ اور تحریک سے وابسطہ تھے۔ ہم نے چومکھی لڑی ایک طرف انگریز دوسری طرف ہندو‘ اُس وقت ہماری اقتصادی حالت ابتر تھی پوری دنیا کو بالعموم اور اسلامی دنیا کو بلخصوص ہماری جدو جہد آزادی پر فخر تھا۔ اور آزادی حاصل کرنے کا ہمارا طریقہ کار اور ہماری بے مثال قربانیاں دیگر محکوم مسلم ممالک کے لئے ایک روشنی اور ماڈل بن گئیں۔ کہاں مشرقی پاکستان اور کہاں مغربی پاکستان درمیان میں کوئی زمینی راستہ نہیں۔ زبانیں مختلف ثقافتیں مختلف لیکن دونوں جانب کے لوگوں میں باہم قومی یکجہتی اور ہم آہنگی پائی جاتی تھی جس کو بنیاد بنا کر آزادی حاصل کی گئی۔ وہ مشترک اور بنیادی چیز کیا تھی وہ ایک نظریہ تھا۔ وہ ایک تحریک تھی۔ اس نظر یے کی خاطر آزادی کی راہ میں دس لاکھ کے قریب مرد خواتین اور بچوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا اور ساٹھ لاکھ مہاجرین نے بھارت سے پاکستانی ہجرت کی۔ تاریخ کے اوراق شہادت دے رہے ہیں کر ایثارو قربانی محبت و رواداری کا جذبہ دیدنی تھا۔ ایک ہی سبق تھا جن کو دہرایا جا رہا تھا پاکستان کا مطلب کیا؟ لااِلا اِللہ یہی وہ طاقت ور جذبہ تھا جس نے قوم کو جوڑے رکھا تھاسوال پیدا ہوتا ہے کہ قومی یکجہتی کیا ہے یہ قوم کو مشترک عوامل پر متحد کرنے کا عمل ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جس سے زبانی رسم و رواج کے اقدامات اور جغرافیائی فاصلوں کی خلیجیں ختم ہو جاتی ہیں انہی اختلافات کو مٹانے کا نام یکجہتی کہلاتا ہے یہ ذہنی یکجہتی اورذہنی تربیت تقسیم سے بیدار ہو سکتی ہے پاکستانی، ہندوستانی اور بنگلہ دیشی کا احساس ہم کسی بھی معاشرہ میں تعلیم و تدریس کے عمل سے پیدا کر سکتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ تعلیم کے عمل سے قومی یکجہتی کیسے عمل میں لائی جا سکتی ہے مختصر یہ کہ رشتوں کو اُجاگر کرنے اور ان پر توجہ دینے سے پیدا ہوتی ہے یہ مشترک رشتے کیا ہو سکتے ہیں۔ یہ مذہب بھی ہو سکتا ہے تاریخ اور رسم و رواج بھی ہو سکتے ہیں اور آزادی کے لئے مشترک جدو جہد اور قربانیاں بھی ہو سکتی ہیں۔
دنیا بھر میں تعلیم کو اس قسم کی ذہنی یکجہتی پیدا کرنے کے لئے استعمال میں لایا جا رہا ہے، حقیقت میں تعلیم و تدریس کا سارا عمل بنیادی طور پر لوگوں میں یگانت اور یکجہتی و اتفاق پیدا کرنے کے لیئے ہی بروئے کار لایا جاتا ہے اس تعلیمی عمل کی بدولت امریکی حکومت ہر سال پانچ لاکھ نو وارد افراد کو اپنی سوسائٹی میں مدغم کرتی ہے اس طرح دیکھاجائے تو تعلیم ایک طاقت ور بھٹی ہے جہاں مختلف قسم کے لوگ مدغم ہوکر ایک نئے قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔اب زرا اپنی طرف نگاہ اٹھا ئیں 1947 میں ہم نے آزادی حاصل کی کہ ہندو اور مسلم کا مذہب خدا‘ رسم و رواج مختلف روایات الگ یہی وہ عوامل تھے جو مشرقی اور مغربی پاکستان کے عوام میں مشترک تھے جن کی بناء پر یکجہتی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھاکہ ان عوامل کو پورے پاکستان کے عوام کے لیے (Binding force)کے طور پر نصاب تعلیم میں اُجاگر کیا جاتا۔ ان کو پروان چڑھایاجاتاان کی آبیاری کی جاتی اس لئے کہ پاکستان کے دونوں حصے جغرافیائی لحاظ سے ایک دوسرے سے علیحدہ تھے ان کے درمیان کوئی مستقل مواصلاتی رابطہ نہ تھا۔ ملک میں کئی زبانیں بولی جاتی تھیں مختلف علاقوں کی اپنی علاقائی روایات اور رسم و رواج تھے یہ وہ قوتیں تھیں جو ملک کے اتحاد اور یکجہتی کو تباہ و برباد کرنے چیلنج دے رہی تھیں۔ یہ ہمارے تعلیمی اداروں کا کام تھاکہ وہ ایک نئی پاکستانی قوم کی تعمیر کا بیڑااٹھاتے مگر افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ اس مقدس کام کی ہمارا تعلیمی نظام بری طرح ناکام ہوا
ناکامی کی وجوہات
ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہم یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے میں بری طرح ناکام ہوئے۔ ہم نے ملک میں تین طرح کے نظام ہائے تعلیم کو رائج کیا۔ گورنمنٹ سکول‘پبلک سکول‘ مشن سکول ان تینوں کے مقاصد علیحدہ اور جدا تھے بلکہ یہ باہم متصادم تھے پر ان تینوں طرح کے اداروں سے تین مختلف قسم کے شہری پیدا ہونے لگے جوبھانت بھانت کی بولیاں بولنے میں مصروف ہوگئے دوسری وجہ یہ تھی کہ ہم نے پاکستان کے تعلیمی مستقبل کا کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا۔ ہم اپنے تعلیمی مسائل کا کوئی سائنٹیفک تجزیہ نہیں کیا۔ ہمارا نظام تعلیم افرا تفری کا شکار رہا۔ ہم نے تعلیم کو بے ڈھنگے انداز میں پھیلایا۔ جس کا نہ کوئی فلسفہ تھا اور نہ ہی جس کے کوئی اغراض و مقاصد تھے
جہاں امریکہ میں ان چوبیس سالوں میں ایک کروڑو اور بیس لاکھ افراد آکر آباد ہوئے اور وہ تعلیم کے عمل سے امریکی قوم میں مدغم ہوگئے وہاں اسی دور میں ہمارے ملک کا ایک حصہ چوبیس سال تک کا رہنے کے بعد ہم سے کٹ گیا اسی طرح دیکھا جائے تو سیاسی اور عسکری شکست نہیں ہے بلکہ یہ نظام تعلیم کی ناکامی کا زندہ ثبوت ہے اور اب بھی ہمارے نظام تعلیم میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہے اگر ہوتی تو انگریزی ہماری ذریعہ تعلیم نہ ہوتی۔ صوبائی عصبیت نہ ہوتی۔لسانی اور مذہبی فرقہ واریت نہ ہوتی۔ ارباب اہل علم و دانش کے سوچنے کا مقام ہے؟
258