columns 142

قومی مفادات کو مقدم رکھیں

پاکستان کے قومی مفادات کی تشریح سب سے پہلے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے کی تھی 11 اگست 1948کو دستور ساز اسمبلی خطاب کے بعد انھوں نے پریس سے بات چیت کرتے ہوئے وضاحت سے کہا تھا کہ پریس کو حکومت پر تنقید کرنے کی مکمل آزادی ہے یہاں تک کہ مسلم لیگ پر بھی تنقید کی جا سکتی ہے۔ جس پارٹی نے پاکستان کے قیام کو حقیقت کا روپ عطا کیا تھا

لیکن آپ کو پاکستان کے مفادات کاخیال رکھنا ہو گا اس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا بعد میں اس کی مزید وضاخت کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا تھا کہ دو قومی نظریہ جس کی بنیا د پرپاکستان کی تحریک چلائی گئی تھی یعنی نظریہ پاکستان پاکستان کے حساس قومی اداروں اور اسلام کے احترام سے متعلق کسی بھی قسم کی تنقیدنا قابل برداست اور نا قابل ہو گی۔نیزریاست کے حساس اور مفادات کی پردہ پوشی اور حفاظت بھی قومی مفادات کے زمرے میں آتی ہے۔ جس پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔اسی قسم کے خیالات پاکستان کے آئین 1973کی شق 19میں پریس کی آزادی سے متعلق درج کیے گئے ہیں

جس میں بڑی وضا حت سے تحریر کیا گیا ہے کہ پریس آزاد ہے تنقید کرنا بھی آزادی صحافت کا بنیادی اصول ہے لیکن قومی مفادات کا خیا ل بھی ضروری ہے۔ نظریہ پاکستان اسلام کی سربلند ی اور پاکستان کے حساس اداروں کا تحفظ قومی مفادات کے زمرے میں آتا ہے۔ اس میں کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں ہو سکتا بلاشعبہ انسان فطرتا خود پسند اور خود غرض واقع ہوتا ہے اور وہ اپنی ضد اور اناؤں کے خولی میں رہنا پسند کر تا ہے اسے صرف اپنے نظریات جذبات احساسات اور خیالات کا پرچار کرنا اور دوسرے پر حاوی ہونا اچھا لگتا ہے معاشرت سے لے کر مذہب تک اور صحافت سے لے کر عدالت تک معیشت سے لے کر سیاست تک ہر شعبہ زندگی انسانی فطرت کی یہ مظاہر آپ کو جا بجا نظر آئیں گے یہ چیزیں قوموں ملکوں کے عرو ج و زوال میں اہم کردار ادا کرتی ہیں

۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں نچلی سطح سے لے کر اعلی سطح تک ہر شعبہ فکری افلاس میں مبتلا ہے مذہبی‘ سیاسی‘ صحافتی‘ عدالتی‘ معاشی‘علاقائی‘ لسانی اور صوبائی تقسیم کا اہم ختم نہ ہونے والا سلسلہ جاری ہے ہر مکتب و فکر کے افراد اپنی جھوٹی اناوں کی خوبی میں اسی طرح قید ہیں کہ ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔مثبت اور تعمیری رویوں کا گہرا کردار نظر آتا ہے منافقانہ طرز عمل اور مفاد پرستانہ کردار نے ہر شخص کے قول وعمل کی تقاضات کو کچھ اس طرح نمایاں کر دیا ہے کہ عوام الناس کا بھروسہ ریزہ ریزہ ہوتا جا رہا ہے بلخصوص ملک کے بالائی اور حکمران طبقے سے وابستہ افراد ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں اور ان کے سربران کارکنان سب اپنی اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اپنے مفادات کو تحفظ دینے اور اختیارات اور و سائل پر قابض رہنے کے خواہاں نظر آتے ہیں ایسی کئی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں اور آج بھی دیکھی جا سکتی ہیں

یہ طے شدہ ہے کہ مملکت کے معاملات چلانے کے لیے آئین بنیادی دستاویز ہوتی ہیں، جس میں ریاست کے تمام اداروں کے دائرہ کا تعین کیا جا سکتا ہے عوام سے لے کر خواص تک سب کے آئینی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی جاتی ہے۔ انفرادی اور اجتماعی ہردو صورتوں سے فرد اور اداروں پر لازم ہے کہ وہ آئین میں دیے گئے اپنے اپنے دائرہ کار کے مطابق فرائض منصبی ادا کریں یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ سیاسی استحکام کی علامت ہے معیشت کے مستحکم ہونے کی ضمانت ہے عوام کے حقوق کی تحفظ کی دلیل ہے اور ملک کی ترقی کا راز بھی اسی میں شامل ہے، افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ارباب اختیا ر ملک کی ترقی کے اس راز حقیقت سے آگاہ ہونے کے باوجود آئین کے مطابق امور سلطنت چلانے میں ناکام چلے آرہے ہیں۔سات دہائیاں گزر گئی ہیں آئین آج بھی باز بچہ اطفال بنا ہوا ہے۔ حکمرانوں سے لے کراپوزیشن تک اور اداروں سے لے کر ایوانوں تک سب کا دعوی ہے

کہ آئین کے مطابق اپنا کردار ادا کر رہے ہیں پھر تغادات کیوں ہے اختلافات چپقلش اور رنجشیں کیوں ہیں ایک دوسرے کے موقف کو سننے‘ سمجھنے اور افہام و تفہیم سے مسائل ومعاملات کو سلجھانے اور حل کرنے کی کاوشیں رنگ نہیں لارہی ہیں۔ جو افسوسناک آپ عدالتی امور میں مداخلت دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سب ایک پیج پر نہیں ہیں۔مبصرین، و تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ ہر وقت اور مربوط نظام کی تشکیل سے لے کر مستقبل کے ٹھوس لائحہ عملی تک عدالتی ارباب اختیار میں تذبذب نظر آتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا ہما را آئین عدالتی امور میں مداخلت کی اجازت دیتا ہے؟ افسوس کہ ایسا کہیں کچھ نہیں ہے تو ایسا عمل آئین پاکستان کی پاسداری ہے یا پا مالی۔ عدلیہ کو اس حوالے سے اپنا صائب اور ٹھوس موقف دیتے ہوئے فیصلہ دینا چاہیے۔ آپ 9مئی کے واقعے کو لے لیجئے ایک سال گزر گیا اس کی بازگشت آج بھی اسی شد و مد کے ساتھ سنائی دے رہی ہے کہ9مئی سانحے کے ملزمان کو سزا ہر صورت دینا ہو گی اور پی ٹی آئی قوم کے سامنے معافی مانگے اور تعمیری سیاست کی یقین دہانی کرائے یہ بھی کہاجا رہا ہے

کہ عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ جو معاملے کی تہہ تک جائے اور پی ٹی آئی کا موقف بھی سامنے آیا ہے کہ وہ 9 مئی کے واقعے پر عدالتی تحقیقات کے لئے تیار ہے اور جوڈیشل کمیشن دھرنے سمیت عمران خان پر حملے،سائفرکیس، آڈیو لیکس اور رجیم چینج وغیرہ کی بھی تفتیش کرے۔ ملکی سلامتی ہر چیز پر مقدم ہے اس پر سمجھو تہ نہیں کیا جا سکتاسانحہ نو مئی کے کرداروں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے ضروری ہے کہ فریقین کی رضا مندی سے عدالتی کمیشن بنایا جائے۔ نگران حکومت کے دور میں گندم کی درآمدکے حوالے سے جو ا سکینڈل سامنے آیا ہے اور ملک کے غریب کسانوں پر جو قیامت ٹوٹی ہے اس کی تحقیقات کے لیے بھی عدالتی کمیشن بنایا جانا چاہیے ہمیں انفرادی و اجتماعی فیصلوں میں ملکی مفاد کو ہر صورت مقدم رکھنا چا ہے۔

حکومت و اپوزیشن اور ریاستی اداروں کے درمیان دنیا کے سارے ہی جمہوری ملکوں میں اختلافا ت پائے جاتے ہیں لیکن ان کا حل بالعموم پر امن آئینی اور جمہوری طریقوں سے نکال لیا جاتا ہے۔ منتخب حکومتوں کو کام کرنے کا موقع دیا جائے ہے اختلافی امور پار لیمان میں طے ہوتے ہیں جو معاملہ عدالت میں چلا جائے وہ عدالتی طریقہ کار کے تحت اپنے منطقی انجام کو پہنچتا ہے لیکن سڑکوں پر احتجاج دھر نے توڑ پھوڑ حکومتوں کو گرانے کے منصوبے کا روبار مملکت کو درہم برہم کر دینے کی کوششیں، ایسا کچھ نہیں ہوتا لیکن افسوس کہ ہم سات دہائیوں میں بھی اختلافات کو ہر اس طریقوں سے یہ ہنر سیکھنے میں ناکام رہے ہیں جس کی وجہ سے اس ملک کی عمر کا بیشتر حصہ خلفشاراور افراتفری میں گزرا ہے اور آج بھی ہی کچھ ہو رہا ہے۔ ہمارے ملک عالمی اور علاقائی سطح پر آج اپنی تاریخ کے خطرناک ترین چیلنجز کا سامنا ہے۔ ایسے حالات ہیں حب الوطنی اور ہوشمندی کا تقاضا ہے کہ ہم سیاسی اور جماعتی مفادات کو تو ایک طرف رکھ کر قومی مفادات کو مقدم رکھیں حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اختلافات حتی الامکان پا ر لیمنٹ میں حل کریں اور عدالت میں پہنچنے والے معاملات کو عدالتوں ہی میں طے ہونے دیں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں