غلبہ اسلام 521

غلبہ اسلام

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ وہی تو ہے جس نے اپنے رسول ؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجاتاکہ اسے پورے دین یعنی نظام زندگی پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو(النور)کسی نظام یا نظریہ کے غلبہ کا مفہوم یہ ہے کہ اسے اعزازواکرام حاصل ہو غلبہ اور عزت کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے اور وہ ماسوائے اعلائے کلمتہ اللہ اور اسلام کی سربلندی کے حاصل نہیں ہو سکتا رسول پاکؐجو نظام زندگی لے کر تشریف لائے وہ کسی دوسرے نظام زندگی کے تابع و مغلوب بن کر رہنے کیلئے نہیں آیا کہ وہ نظام کفر کی دی ہوئی رعایتوں اور گنجائش میں سمٹ کر رہے اسلام زیر سایہ کفر کسی بھی حالت میں گوارا نہیں اس لئے قرآن و سنت میں کہیں نہیں ملے گا کہ مسلمان کسی غالب کافرانہ نظام زندگی کے تحت کس طرح زندگی بسر کریں؟غلبہ دین کے معنی یہ ہیں کہ جو لوگ آخری آسمانی دین کی حقانیت کو تسلیم کرکے اس کے مطابق اپنی طرز زندگی استوار کر چکے ہیں اب وہ اللہ تعالیٰ کی ساری زمین پر رب کریم کی طرف سے آنے والے اس نظام دین کو نافذ کرنے کی حتی المقدرو کوشش کریں خواہ یہ کوشش زبانی جہادکی شکل میں ہو یا مالی جہاد کے ذریعے ہو یا جان کا نذرانہ پیش کرنے کی صورت میں ہو یاد رہے کہ غلبہ دین کے یہ معنی ہر گز نہیں ہیں کہ مسلمان کو پوری دنیا میں جہاں چاہیں صرف نمازپڑھنے‘رکوع و سجودکرنے کی اجازت مل جائے یا دیار غیر میں ان کیلئے مسجد و مدرسہ کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ نہ رہے یا دیار کفر میں مسلمانوں کو تبلیغ یا اصلاح کیلئے وافر مقداد میں سہولت ویزہ مل جائیں جہاں اسلام کی اصل قوت مزاحمت جہاد کے سوا تمام معروف کی تبلیغ یا اصلاح کی اجازت ہو البتہ جہاد کیلئے دعا بھی نہ کی جا سکے یا انہیں سر زمین کفر اور دارلحرب میں با آواز کلمہ پڑھنے‘تسبیح اور ورد وظائف کرنے کی سہولت حاصل ہو جائے یا ان کی پارلیمنٹ میں وہ ممبران بنا دئے جائیں یا نظام طاغوت کو چلانے کیلئے ان کو وزارت یا نظام باطل کو چلانے کیلئے اہم منصب دے دئے جائیں بلکہ غلبہ دین کی حقیقی معنی یہ ہیں کہ انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی سطح پر بھی اللہ کے حکم قانون اور فیصلے کو بالادستی حاصل ہو کسی فرد‘ گروہ‘جماعت یا قوم کے بجائے اللہ کی سرزمین پر اللہ کی حاکمیت قائم ہو اور سوشلزم‘سرمایہ داری‘فاشزم‘جدیدیت کیمونزم‘سکولزازم‘روشن خیالی‘جمہوریت یا بدھ مت‘ہندو مت‘ عیسائیت اور یہودیت کے بجائے ان پر صرف اللہ رب العزت کا حکم ہی چلے فیصلے کا سارا اختیار اللہ ہی کو ہے کیونکہ وہی ساری کائنات کا مالک ہے اسی لئے اسی مالک الملک کا حکم چلنا چاہیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ان کافروں سے جنگ کرو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کیلئے ہو جائے“(الانفال)رسول پاکؐنے فرمایاکہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں ان لوگوں سے لڑتا رہوں یہاں تک کہ وہ اس بات کی شہادت دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدؐ اللہ کے رسولؐہیں اور نماز قائم کریں اور زکواۃ ادا کریں اور جب انہوں نے یہ کر لیا تو انہوں نے مجھ سے اپنا خون اور مال محفوظ کر لئے سوائے اس کے جو اسلام کا حق ہے اور ان کا اعتقادی حساب اللہ کے ذمہ ہے (بخاری و مسلم)رسول پاکؐ کے بعد صحابہ کرامؓ اسی مشن پر گامزن رہے اور اللہ کی حاکمیت سے روگردانی کرنے والوں کے خلاف ان کی تلواریں چلیں حق و باطل کے پیہم معرکے ہوئے اور کفر و شرک پہ مبنی قیصروکسریٰ جیسی طاغوتی سپر طاقتیں گرتی چلی گئیں جبکہ اللہ کا دین بلند وبالا اور اللہ کا حکم نافذ ہوتا چلا گیا جنگ قادسیہ کے موقع پر جب ایرانی افواج کے سپہ سالار رستم نے کہا کہ ہمارے ملک کو فتح کرنے کیوں چلے آئے؟اگر تم بھوک‘تنگدستی و افلاس نے ستایا ہے تو ہم ازراہ احسان تمہیں مال و متاع سے نواز دیتے
ہیں مسلمانوں کے سفیر حضرت ربعی بن عامر نے جواب دیاکہ”اللہ تعالیٰ ہمیں تمہارے خلاف اس لئے چڑھا لایا ہے کہ ہم اللہ کے بندوں کو تم لوگوں کی غلامی سے نکال کر تمہاری بندگی کے بجائے اللہ کی بندگی کی طرف لے آئیں“اس سے معلوم ہوا کہ اسلام آیا ہی اسی لئے ہے کہ اس کو تمام اذیان پر فوقیت حاصل ہو چاہیے کافر اور مشرک مانیں یا نہ مانیں اگرچہ وہ حق کے خلاف مذاحمت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں اس کے علی الرغم یہ کام ہر حال میں ہو کر رہے گا اس دعوت کے پیچھے جہاد کی قوت سے اور دنیا بھر کے کافروں یہودو نصاریٰ اور ہنود کی طاقت اور اسلام کے خلاف سازشیں ان پھونکوں سے زیادہ کچھ نہیں جو کوئی بے وقوف سورج کے نور کو بجھانے کیلئے مارتا ہے صرف جہاد کے عمل کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے مجاہد اعظم نبی کریمؐ نے فرمایاکہ بلاشبہ یہ دین وہاں تک ضرور بالفرور پہنچ کر رہے گا جہاں تک دن اور رات کی رسائی ہے اور اللہ تعالیٰ کسی مٹی اور گارے کے مکان کو نہ چھوڑے گا کہ اس میں اس دین کو داخل نہ کر دے خواہ کوئی عزت کے ساتھ قبول کرے یا ذلت کے ساتھ اسلام اور اہل اسلام کو اللہ تعالیٰ عزت دے کر رہے گا اور کفر کو ذلیل و خوار کرکے رہے گا(احمد) اس لئے اہل اسلام عصائے موسی‘ؑ ہاتھ میں ہونے کے باوجود میڈیا کے بل بوتے پر اپنی طاقت کا ہوا بنانے والے کافر فریب کاروں کی رسیوں سے ڈرنا چھوڑ دیں اللہ تعالیٰ کا یہ غیر مشروط اعلان ہے کہ جو اللہ اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بناتے ہیں اسے معلوم ہو کہ اللہ ہی کی جماعت کامیاب ہونے والی ہے اس میں کمزور اور ظاہر بینوں کیلئے تسلی ہے کہ مسلمانوں کی عددی قلت اور ظاہری بے سروسامانی پر نظرنہ کریں جس طرف اللہ اور اس کے رسولؐ کے سچے وفادار پیروکار ہوں گے وہی پلہ بھاری رہے گا چاہے کافر اس کو مکروہ سمجھے اگرچہ منافقین اپنی مذموم حرکتوں سے باز نہ آئیں تاہم اللہ کی مشیت اپنا کام کرے گی اور اسلام کو یقینا تمام اذیان باطلہ پر غلبہ حاصل ہو گا دور حاضر میں پورے عالم کے کفار اور مشرکین یکجا ہو کر جدید ترین اسلحہ و جنگی سازوسامان بلاغ عامہ کی دجالی قوت اور مال و دولت کا انبار ساتھ لئے امت مسلمہ پر اس طرح ٹوٹ پڑے ہیں جس طرح بھوکے دسترخوان پر یاگدھ مردار پر ٹوٹ پڑتے ہیں مسلمانوں میں وھن یعنی زندگی سے پیار اور موت و قتال سے کراہیت کی بیماری پیدا ہو جانے کی وجہ سے دو ارب کی تعداد میں ہونے کے باوجود ان کا رعب ختم ہو کر رہ گیا ہے اور وہ سمندر کی جھاگ یا کوڑا کرکٹ کی مانند بغیر توقیر یا وقعت کے ان کفار کے ثقافتی و سامراجی عزائم اور مسلمانوں کے وسائل پر قبضہ کرنے کی ان کی نہ ختم ہونے والی حرص کے سیلاب میں نہایت ہی ارزاں قیمت پر بہے جا رہے ہیں افسوس تو پاکستانی سیاستدانوں پر ہے کہ انہوں نے قرآن و سنت کے بجائے اسی نظام کو اختیار کیا کہ سیاست افرنگ ہی میں انہیں سرمایہ دارکی اجارہ داری نظر آئی جو مالداروں کو نسل در نسل اقتدار تک پہنچاتی ہے اور عوامی اکثریت کو جہالت و غربت و افلاس کے شکنجے میں جکڑ رکھتی ہے حالات سامنے ہیں کہ کلمہ طیبہ کے نام پر ایک اسلامی ریاست میں مسلمانوں کا دین اسلام کی برکات سے مستفیض ہونا تو درکنارکفر کے اس پارلیمانی جمہوری نظام سے بھی خاطر خواہ فائدہ نہ اٹھاسکے جس میں ”عوام کی حکومت عوام کیلئے“ جیسے منافقانہ نعروں سے دنیا بھر کے غریب عوام کو بیوقوف بنا رکھا ہے اسی نظام کی نحوست کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں ایک سیاسی شعبدہ باز عوام کو ایک صوبائی تعصبات میں الجھا کر نفرتیں بڑھاتا رہا اور مغربی پاکستان میں بھی ایک جاگیردار روٹی کپڑا اور مکان کے جھوٹے وعدے سے غریب عوام کو بہکاتا رہا اور پھر ادھر ہم اور ادھر تم کے نعرے سے قائداعظم کے پاکستان کو تقسیم کر دیا۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں