نہ شوق تھا ہمیں تر ی جد ائی کا
نہ طلب گا ر تھا تری بے و فا ئی کا
تجھے ڈولی میں بٹھایا اپنے ہا تھو ں سے
پہن لیا وہ کفن جو بنا یا اپنے ہا تھو ں سے
اور تجھے دلہن جیسا سجا یا گیا
اور اد ھرپھر ہمیں کفن پہنا یا گیا
پھر جو تر ی ڈولی کو اٹھا یا گیا
اور ادھر میر ی میت کو اٹھا یا گیا
ٓادھر تری ڈولی جا رہی تھی
اور ادھر ہما ری میت جا ر ہی تھی
تم دعا ئیں لے کر رخصت ہو ئے
اور ہم سزا ئیں لے کر رخصت ہو ئے
اور تجھے دنیا مل گئی بے وفا ئی کر کے
اور ہمیں موت مل گئی تجھ سے جد ائی کر کے
(فاریز احمد‘تریل)
94