بن سنور کے وہ نکلتے ہیں جب گلی سے
شہر والے زیر عذاب آ جاتے ہیں
وہ ارادہ کرے ہے جب بھی قتل کا
جان دینے کو بے حساب آ جاتے ہیں
جب لٹانے پے آئے حسن کی دولت
اس کے در پہ چل کے نواب آ جاتے ہیں
جب بھی سوچتا ہوں ہم بھی کریں کسی سے محبت
کئی آنکھوں میں نئے خواب آ جاتے ہیں
عدن ہم روز کریں مہ کشی سے توبہ
اور پھر سامنے وہ بے نقاب آ جاتے ہیں
(عدن بن خرم‘دوبیرن کلاں)
دل لگانے کا دکھ سمجھتے ہو؟
روٹھ جانے کا دکھ سمجھتے ہو؟
چھوڑ کے گاؤں مال و زر کے لیے
شہر جانے کا دکھ سمجھتے ہو؟
یوں نصیحت تو کر رہے ہو میاں
بھول جانے کا دکھ سمجھتے ہو؟
دن تو جیسا گزر گیا‘اس بن
شب بِتانے کا دکھ سمجھتے ہو؟
یار کو دیکھ کر رقیب کے ساتھ
مسکرانے کا دکھ سمجھتے ہو؟
یوں سرِ عام ساری دنیا کو
غم سنانے کا دکھ سمجھتے ہو؟
(محمد توقیر حیدر)
زلف راتوں سی ہے رنگت ہے اجالوں جیسی
پر طبیعت ہے وہی بھولنے والوں جیسی
اک زمانے کی رفاقت پہ بھی رم خوردہ ہے
اس کم آمیز کی خو بو ہے غزالوں جیسی
ڈھونڈتا پھرتا ہوں میں لوگوں میں شباہت اسکی
کہ وہ خوابوں میں بھی لگتی ہے خیالوں جیسی
اسکی باتیں بھی دل آویز ہیں صورت کی طرح
میری سوچیں بھی پریشاں میرے بالوں جیسی
اسکی آنکھوں کو کبھی غور سے دیکھا ہے فراز
سونے والوں کی طرح جاگنے والوں جیسی
(سردار صفوان تاج موہڑہ بھٹاں)
208