103

عشق مجازی اور خود کشی کا رحجان/فیصل بلال

گزشتہ کچھ مہینوں میں کراچی اور راولپنڈی سمیت ملک کے مختلف شہروں چند ایسے واقعات ہوئے ہیں جن میں نوجوان طالب علم نے پہلے اپنی ساتھی طالبہ کی زندگی کا خاتمہ کیا اور پھر خود کشی کر لی، اس لیے کہ وہ ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے اور ان کے والدین شادی پر راضی نہیں تھے۔ اس خطرناک رحجان کے اسباب کا ایک جائزہ پیش ہے ہندوستاں پر کیا موقوف، وطن عزیز کی موجودہ فلموں، ڈراموں اور گانوں میں بھی سب سے بڑا موضوع محض عشق مجازی ہی بن کر رہ گیا ہے۔ اس طرح کے موضوعات نوجوانوں کو اس خطرناک رحجان کی طرف دھکیل رہے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سنجیدہ اور تعمیری موضوعات کو ڈراموں کا حصہ بنایا جائے۔ جو ہمارے دینی اور ملی نظریات سے ہم آہنگ ہوں ۔ پاکستان کے قومی ٹیلی ویڑن اور ریڈیو اپنا قومی فریضہ ادا کریں۔ اور نجی چینل ان کی تقلید کریں۔ میرے خیال میں عشق مجازی کو ضرورت سے زیادہ پرواں چڑھانے میں قدیم اور جدید اردو شاعری نے خاصا کردار ادا کیا ہے۔ جہاں سے یہ روایت ڈراموں اور فلموں میں در آئی۔اردو کے تقریباًٍٍ تمام شعرا نے عشق مجازی کو اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ سیکڑوں ، ہزاروں ایسے اشعار موجود ہیں جہاں عشق مجازی کو زندگی کا سب سے اہم حصہ قرار دیا گیا اور محبوب کی تعریف و توصیف میں حد درجہ مبالغے سے کام لیتے ہوئے زمین اور آسمان کے قلابے ملا دیے گئے ۔ اس مبالغے کا ایک اندازہ میر تقی میر کے اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے، جس میں انہوں نے محبوب کی زلف کے فقط ایک بال کو سو عشاق کی روحوں کا مرکب قرار دے دیا۔
صد رگ جاں کو تاب دے باہم
تیری زلفوں کا ایک تار کیا!
غالب نے تو جلاد کو درخواست کر دی کہ جب تک میرا محبوب کہتا ہے مجھے پیٹتے رہو، بے شک میری گردن کٹ جائیاسی بہانے میرے کانوں میں محبوب کی آواز تو پڑتی رہے گی
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند کہ سر اڑ جائے
جلاد سے لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور
ایک نامعلوم شاعر نے تو اپنی بربادی کو “شائبہ خوبی تقدیر” یا “فلک” کے ذمے ڈالنے کے بجائے، اپنے محبوب کی زلفوں کے پیچ و خم کے کھاتے ڈال دیا۔ ملاحظہ کریں:
یہ جو بل آج ہیں میری تقدیر میں
اس نے گیسو کو شاید سنوارا نہیں
اس طرح کے مزید سیکڑوں اشعار پیش کیے جا سکتے ہیں۔ مگر اپنے مقصد کی حمایت میں ایسے شعری نمونے پیش کر رہا ہوں جہاں شعرا نے پینترا بدلا اور زمینی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ۔ ا ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوں ، جس کا اعترف ان شعرا نے کسی کسی جگہ کیا ہے۔ سب سے پہلے غالب:
کہتے ہیں جس کو عشق
خلل ہے دماغ کا
فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
غم اگرچہ جاں گسل ہے،پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غم عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا
فیض احمد فیض:
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
پروین شاکر:
عشق نے سیکھ ہی لی وقت کی تقسیم کے اب
وہ مجھے یاد تو آتا ہے مگر کام کے بعد
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ شعرا جو طویل عرصہ تکعشق مجازی کو زندگی کی سب سے بڑی حقیقت کہتے رہے، زندگی کے کچھ لمحے انہیں بھی احساس ہوا اور انہوں نے زندگی کے دیگر مسائل کو اہم قرار دیا جس میں روزگار ، مسائل گرستی ، تعلیم اور دیگر امور شامل ہیں۔امید ہے کہ جدید شعرا کرام ان حقائق پر مبنی اشعار میں اضافہ کریں گے اور دور حاضر کے ذرائع ابلاغ بھی اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے۔امید ہے کہ طالب علم پڑھائی پر توجہ دیں گے اور پڑھ لکھ کر معاشرے کی تعمیر میں اہم کردار ادا کریں گے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں