عبدالمجید ملک‘محبت کا پیکر 336

عبدالمجید ملک‘محبت کا پیکر

محبت وہ جذبہ ہے جو انسانی زندگی کو خوبصورت بناتا ہے، ماں اور اولاد کی محبت، میاں بیوی کی محبت، بھائی اور بہن کی محبت، دوست سے دوست کی محبت، میں وہ خوش نصیب انسان ہوں

جس نے ہر طرف سے محبتوں کو سمیٹا ہے، ماں باپ سے بھائیوں سے، خاندان سے، مخلص دوستوں سے محبتوں کو سمیٹا، لیکن ایک شخص نے مجھے بہت محبت دی، دراصل وہ شخص ہے ہی ایک محبت کا پیکر ہے

وہ ہر فرد سے محبت کرتے ہیں گاؤں میں آنکھ کھولنے سے لیکر ایڈیشنل ڈائریکٹر تک پہنچنے تک، پھر اپنے ارد گرد پھیلے ہوئے رشتوں سے، خاندان کے ہر فرد سے اپنے دوستوں سے، اپنے ماتحتوں سے، جماعت اسلامی کے کارکنان سے وہ محبت کرتے ہیں جس شخصیت کا تذکرہ کرنے جارہا ہوں، وہ شخصیت عبدالمجید ملک صاحب ہیں

، محترم بھائی عبدالمجید ملک 15 جنوری 1948 کو سملال تحصیل راولپنڈی علی احمد کے گھر پیدا ہوئے، ان کے والد صاحب رائل آرمی میں تھے، جھنوں نے دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا اور 1947 میں حوالدار ریٹائر ہوئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد گاؤں میں کھیتی باڑی کی، عبدالمجید ملک بچپن سے ہی بہت ہی سنجیدہ اور ذہین بچے تھے

انھوں نے پرائمری اور مڈل کے امتحانات جبر درویش مڈل سکول سے امتیازی نمبروں سے پاس کئے اور میٹرک کا امتحان بسالی ہائی سکول سے 1963 میں امتیازی نمبروں سے پاس کیا، اس کے بعد انٹرمیڈیٹ کا امتحان گورنمنٹ کالج سیٹلائٹ ٹاؤن سے 1965 میں پاس کیا

اور گریجویشن پنجاب یونیورسٹی سے 1967 کی، اکنامکس میں ماسٹر کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے فرسٹ ڈویڑن میں 1973 حاصل کی، اس دوران 1966 میں کرپا میں ٹیچر رہے، 1967 ء میں گریجویشن کے بعد راولپنڈی الیکٹرک کمپنی میں سروس جوائن کی اور چار سال جاب کی اس کے بعد MAG میں ایڈیٹر بھرتی ہوگے

اور گولڑہ میں پانچ سال ایڈیٹر رہے، اس کے بعد نیشنل رجسٹریشن آرگنائزیشن میں چلے گئے 1976 سے لیکر 1981 تک نییشنل رجسٹریشن آرگنائزیشن میں ریے،اس کے بعد1981 میں اسلامی یونیورسٹی میں چلے گئے اور 2008 کو اسلامی یونیورسٹی سے ایڈشنل ڈائریکٹر گریٹ 19 میں ریٹائر ہوئے، ان کے چار بھائی تھے

جن میں عبدالغفور، عبدالرشید،اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں، دوسرے دو بھائی عبدالروف ملک طویل عرصے تک سعودی عرب رہے اب راولپنڈی میں مقیم ہیں اور جماعت اسلامی کے رکن ہیں

چھوٹے بھائی عبدالقیوم وہ ایک سرکاری ادارے میں جاب کررہیں ہیں اور راولپنڈی میں مقیم ہیں عبدالمجید ملک نے اپنے چاروں بھائیوں کو پڑھایا ان کی تربیت کی شادی کروائیں، اور ان کی دو بہنیں ہیں جو اپنے خاندان میں شادی شدہ ہیں، عبدالمجید ملک صاحب نے 1979 میں شادی کی ان کی اہلیہ بھی سکول ٹیچر تھیں

وہ اللہ کو پیاری ہوچکی ہیں ان کا ایک ہی بیٹا سعد علی ہے جس نے الکٹرانک میں انجیرنگ کی ہوئی ہے ان کی چار بیٹیاں ہیں جو الحمدللہ ساری شادی شدہ ہیں،

عبدالمجید ملک صاحب سروس کے دوران اپنے پورے خاندان کو ساتھ لیکر چلے تمام خاندان کو آپ نے پیچھے نہیں چھوڑا سب کو ساتھ لیکر چلے، سب کی تعلیم پر توجہ دی یہ سبق ان کو اس اپنے والد صاحب اور اساتذہ کے ذریعے ملا تھا اگر حالات تبدیل کرنا چاہتے ہو تو اس کا صرف ایک ذریعہ ہے وہ ہے

تعلیم یہ ہی وجہ ہے کہ آج ان کا پورا خاندان اعلی تعلیم یافتہ ہے ان کے رشتے میں بھانجے توقیر اعوان پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں، ان کا بیٹا سعد علی الیکٹرانک انجینئر ہے

باقی بھانجے اور بھتیجے بھی تعلیم یافتہ ہیں انھوں نے اپنے خاندان کے ہر نوجوان کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی تعلیم کے بعد سارے راستے کھل جاتے ہیں، ان کے کزن اور ہمارے بھائی عبدالقدیر اعوان اسلامی یونیورسٹی سے سپریڈنٹ ریٹائر ہوئے، اس کے علاؤہ خاندان سے باہر جہاں تک ممکن ہوا

انھوں نے نوجوانوں کو پڑھائی میں مدد دی، ہر نوجوان کی راہنمائی کی، ہر فرد سے خیر خواہی کی، ویسے سملال گاؤں ہے بھی بہت زرخیز گاؤں ہے اس گاؤں کے چوہدری منیر صاحب راولپنڈی ریڈیو پر جمہور نی آواز پروگرام میں بڑا نام کمایا، ملک عباس ضلع کونسل کے ممبر رہے، عبدالغفور چوہان رکن جماعت اسلامی نائب ناظم یوسی بندہ رہے

آج کل بہت بیمار ہیں اللہ تعالیٰ ان کو صحت عطا فرمائے،بھائی مسعود اعوان کونسلر رہے اور ہمارے بھائی عبدالرزق قریشی گریٹ 19 سے ریٹائر ہوئے وہ رکن جماعت اور جماعت اسلامی ضلع راولپنڈی میں ایڈیٹر ہیں ان کے بیٹے پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں

، میرے بھائی اور میرے دست و بازو عبدالقدیر اعوان ممتاز سماجی اور سیاسی شخصیت وہ اسلامی یونیورسٹی سے سپریڈنٹ ریٹائر ہوئے، محترم جناب منظور حسین مرحوم رحمہ ڈسٹرکٹ ریجسٹرار نیشنل رجسٹریشن آرگنائزیشن سے ریٹائر ہوئے تھے، محمد شریف ایڈووکیٹ سپریم کورٹ کے وکیل اور رجسٹرار رہے

دو مہینے پہلے وہ اللہ کے حضور پہنچ گئے، توقیر اعوان پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہیں تمام نوجوان اعلی تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہیں الحمدللہ، محترم بھائی عبدالمجید ملک 1967 میں جماعت اسلامی سے متعارف ہوئے

انھوں نے 1970 کے الیکشن میں جماعت اسلامی کے امیدوار راجہ عبد العزیز بھٹی رحمہ اللہ کی بھرپور مہم چلائی اور ان کے پولنگ سٹیشن وریامہ سے جماعت اسلامی کو 1970 کے الیکشن میں 786 ووٹ ملے تھے پی پی پی بہت دور تھی پھر صاحبزادہ عبدالواحد جب پہلی دفعہ 1979 کے ضلع کونسل کے الیکشن میں آئے

اور کامیاب ہوئے،عبدالمجید ملک صاحب ان کی الیکشن مہم کے انچارج تھے جب وہ الیکشن جیت گئے تو عبدالمجید ملک ان کے سیکرٹری تھے، تو تمام خطوط اور دفتری امور عبدالمجید ملک کے زمے تھے

پھر دوسری دفعہ 1983 میں دوبارہ صاحبزادہ عبدالواحد ضلع کونسل کا الیکشن لڑا تو اس الیکشن مہم کے بھی انچارج تھے اس کے بعد جب صاحبزادہ عبدالواحد مرحوم ممبر ضلع کونسل منتخب ہوئے

تو ان کے تمام دفتری معملات عبدالمجید ملک کے زمہ تھے، پھر 1985:کے الیکشن ڈاکٹر محمد کمال صاحب کی الیکشن مہم بھرپور کردار ادا کیا پھر جب میں 2006 میں اس حلقے میں آیا

تو انھوں نے میری انگلی پکڑ کر چلایا انھوں نے، عبدالقدیر اعوان صاحب، عبدالرزق قریشی صاحب، حاجی اشرف صاحب، بابو غضنفر علی نے میری قدم قدم پر راہنمائی کی، 2008 میں جب ریٹائر ہوئے تو میں ان کے گھر اڈیالہ روڈ حاضر ہوا

اور عرض کی بھائی جان آپ رکن بن جائیں اس سے پہلے وہ رکن بننے سے بچنا چاہتے تھے جب میں نے ان کے گھر پہنچ کر درخواست کی انھوں نے فوراً درخواست قبول کرلی اور مجھے رکنیت کا فارم فل کردیا وہ 2009 کو رکن بنے پھر یوسی دھاماسیداں کے امیر بھی رہے، اب وہ کچھ بیماریوں کی لپیٹ میں آ چکے تھے

لیکن اس کے باوجود اس ناچیز کے سر سے اپنا ہاتھ نہیں اٹھایا قدم قدم پر راہنمائی کی اور کررہیں 2013 کے الیکشن میں جب میں میدان میں آیا این اے 52 اور پی پی 5 موجودہ پی پی 10، سے امیدوار تھا

انھوں نے ایک بڑے بھائی کے طور پر میری راہنمائی فرمائی، 2018 کے الیکشن میں پی پی 10 میں دوبارہ میں آیا تو انھوں بے شمار بیماریوں کے باوجود میرا بھرپور ساتھ دیا 2017۔ میرے بھائی جان کمانڈر طالب حسین کی وفات کے بعد مجھے اپنے سینے سے لگا لیا وہ جانتے تھے

کہ میں اندر سے ٹوٹ چکا ہوں لیکن انھوں نے اپنے چھوٹے بھائی کو سینے سے لگا کر رکھا اور آج تک قدم قدم پر میری راہنمائی اور سرپرستی کرتے ہیں پچھلے دو الیکشن کی طرح اس دفعہ بھی سب سے زیادہ ووٹ مجھے یوسی بندہ سے 776 ملے، 2020 میں مجھے کرونا ہوگیا میں ہسپتال میں ایڈمٹ تھا

تو وہ بہت ہی فکر مند تھے یکم دسمبر 2020 ہسپتال سے گھر آیا تو انھوں نے میرے بچوں کے ذریعے مجھ سے مسلسل رابطہ رکھا حلانکہ وہ خود بھی سخت بیمار تھے

یہ ان کا مستقل رویہ ہے وہ اپنے تمام دوستوں سے رابطے میں رہتے ہیں جس کی جو ضرورت ہوتی ہے اس کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہر فرد سے ہمدردی اور خیر خواہی کرنا ان کی مستقل عادت ہے،

بابو غضنفر علی ان کے کلاس فیلو، دوست اور شادی کے دوست تھے ان کے ساتھ آخر وقت ساتھ نبھایا اور ان کی وفات کے بعد ان کے بچوں کے ساتھ نبھا رہے ہیں ان کے بچوں کی دیکھ بھال کررہیں ہیں ان کے نزدیک کسے کے حوالے سے منفی سوچنا سخت گناہ ہے وہ ہر فرد سے خیر خواہی کرتے ہیں جو ممکن ہوتا ہے

دوسروں کی مدد کرتے ہیں اپنے پورے خاندان کو اپنے پروں کے نیچے انھوں نے رکھا ہوا ہے غرضیکہ وہ سراپا خیر اور ہیں اس طرح محبت کا پیکر آج بیوی کی جدائی اور بے شمار بیماریوں کے باوجود ہر طرف محبتیں بانٹنے میں لگے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے والدین کی اور ان کی اہلیہ محترمہ کی مغفرت فرمائے

اور ان کے بچوں کی زندگیوں میں خیر وبرکت عطا فرمائے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے آمین آج ان کا پورا خاندان جماعت اسلامی کے ساتھ ہے اللہ تعالیٰ اس خاندان کو ہر شر اور فتنے سے محفوظ فرمائے آمین

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں