طالب حسن آرائیں/ناکام آرزوں اور ناآسودہ تمناؤں کا انجام انسان کو لہو لہو کر دیتا ہے دل کی بے ترتیب دھڑکنوں کے ساز کے درمیان جو خوش امیدی کبھی اس قوم کی زندگی کا حصہ تھی موجودہ دور میں وہ نظر نہیں آتی تمام آرزوں کا خون ہوچکا اب نہ کوئی خوش فہمی رہی اور نہ ہی آنکھوں میں کوئی امید۔ہوس اقتدار کی ہو یا دولت کی انسان کو ذلت ورسوائی کی اس کھائی میں لے جاتی ہے جہاں درندے بھی اس سے شرماتے ہیں بالادستی‘اختیارات کی دوڑ بعض اوقات سب کچھ داؤ پر لگا دیتی ہے لیکن ہمیں احساس نہیں ہوتا زندگی کی حقیقتں بڑی سنگین ہوتی ہیں آسمان سے زمین پر پٹخ دیتی ہیں کیونکہ اختیارات صدا نہیں رہا کرتے حقائق یہ ہیں کہ ظلم وزیادتی کہیں بھی ہو غم وغصے کو جنم دیتی ہے اگر بروقت تلافی نہ ہو تو جذبات انتقام میں بدل جاتے ہیں ملنے والے دکھ دھیرے دھیرے چنگاری میں ڈھلنے لگتے ہیں اور پھر ایک دن آگ بھڑک اُٹھتی ہے۔ شرقی گوجرخان کے علاقوں میں رونما ہونے والے واقعات بھی عوام کے دلوں میں چنگاریاں پیدا کر رہے ہیں اگر توجہ نہ دی گئی تو آگ بھڑکنے میں اب زیادہ دیر نہیں لگے گی۔شرقی گوجرخان میں جرائم کے سدباب کے لیے قائم قاضیاں پولیس چوکی پر موجود اہلکاروں اور چوکی انچارج کی نااہلی اور غیر ذمہ داری کے باعث علاقے میں جہاں منشیات فروشی کا کاروبار پنپ رہا ہے وہیں چوری چکاری اور ڈکیتی کی بڑھتی وارداتوں نے علاقہ مکینوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں اور یہ وارداتیں بلا تعطل جاری ہیں چکڑالی بدھال میں ہونے والی تازہ وارادت میں چھ نامعلوم مسلح افراد نے رات دیر گئے ناہید ولد عبدالمجید کے گھر داخل ہوکر اہل خانہ کو یرغمال بنا کر گھر میں موجود طلائی زیورات‘نقدی اور کمبل وغیرہ لوٹ لیے جبکہ اس سے قبل اسی شش ماہی میں چوری ڈکیتی کی متعدد واردتیں ہوچکیں۔جبکہ اس کے بعدہفتے کے روز فیملی سمیت کیری گاڑی میں تھتھی گاوں سے اپنے سسرال جانے والے عبدالوحید کو جبر کے قریب سامنے سے آنے والی کار نے انہیں راستہ روک کر گاڑی کو کھڑے کرنے پر مجبور کیا جس اترنے والے تین مسلح افراد کیری کی جانب دوڑے تاہم عبدالوحید نے گاڑی کو تیزی سے سائیڈ کی تھوڑی سے جگہ سے نکال لیا جس پر مسلح افراد کیری کے پیچھے بھی دوڑے۔عبدالوحید کے مطابق انہوں نے قاضیاں پولیس چوکی کو واقعہ کی اطلاع دی تو انہوں نے مذکورہ افراد کوپولیس اہلکار بتایا جبکہ ان میں کوئی شخص بھی وردی میں ملبوس نہیں تھا۔اور نہ ان افرادکا گاڑی کوروکنا ظاہر کرتا تھا کہ وہ پولیس کے لوگ تھے۔وہ یقیناً ڈکیتی کی نیت سے آئے تھے۔سال کے آغاز میں جنوری کے مہینے میں دو دن کے وقفے سے سائیں صغیر المروف سائیں سپاں والی اور بٹ جولرز کے اونر جاوید بٹ کے گھروں میں دن دیہاڑے ڈاکے کی ورادتیں ہوئیں جس میں لاکھوں روپے مالیت کا طلائی زیورات اور نقدی لوٹی گئی۔لیکن ان درجنوں وارداتوں میں سے کسی ایک کا بھی سراغ نہ لگایا جاسکا۔جس سے پولیس کی کارکردگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ڈیکوریشن کی دوکان میں ہونے والی چوری کی واردات کا سراغ بھی متاثرہ فریق نے مختلف مقامات پر لگے سی سی ٹی وی کیمروں کو گھنگالنے کے بعد لگایا۔جس کا کریڈیٹ پولیس نے لیاتاہم گوجر خان تھانے کے ایس ایچ او کی جانب سے تفتیش کو ایک ہی چوری تک محدود رکھا گیا جس سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں غالب خیال تھا کہ شاید علاقے میں ہونے والی وارداتوں کا کھرا آٹھا کر ان کے پس پشت سہولت کاروں کو بے نقاب کیا جاسکے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ یا تو قانون بے بس ہوچکا یا بک چکا۔جبکہ انسان نے خطرناک صورت اختیار کر لی ہے بس سمجھنے والے جو بھی سمجھیں ہماری سمجھ میں تو یہ آتا ہے کہ دکھوں کی ایک زنجیر ہے جس نے شرقی گوجر خان کے باسیوں کو جکڑ رکھا ہے باور اس زنجیر کو زنگ لگ کر کڑی کڑی ٹوٹنے سے خود قانون اور سیاسی مداخلت نے بچا رکھا ہے پے درپے وارداتوں کے رونما ہونے کے باوجود قاضیاں چوکی انچارج کا بدستور اسی جگہ تعینات رہنا بہت کچھ سمجھا رہا ہے۔یاد رکھیں کہ زندگی جب عوام کے لیے زندان کا منظر نامہ بن جائے تو سانس لینے میں گھٹن کا احساس انسان کی ہمت ختم کردیتا ہے قانون اور اصول کوجب بااختیار طبقہ اپنی رعایا سمجھ لے تو عوام کو انہیں حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا سامنا آج شرقی گوجر خان کے لوگ کر رہے ہیں۔اس سے پہلے کہ گھٹن زدہ ماحول میں اندیشے اور تفکرات کے بادل گہرے ہورہے ہیں۔اس پہلے کہ لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو ان واقعات کا سدباب کی پلاننگ کی جائے مسلسل ناکام چوکی انچارج کو ھٹا کر کسی اہل آفیسر کو تعینات کرنا اب ضرورت بن چکی اور تبدیلی نہیں ہوتی تو یہی ہی تبدیلی کرلیں۔
278