columns 181

سیاست اور معیشت کی ترقی

آج کا دور معیشت کا دور ہے۔ترقی یافتہ ممالک معاشی طور مضبوط ہیں اور دنیا پر راج کررہے ہیں اور ایسے ممالک اپنا سیاسی اثر ور سوخ بھی رکھتے ہیں دنیا ان کی با ت سنتی ہے اور وہ سیاسی طور پرمضبوط ممالک ہوتے ہیں غیر ترقی یافتہ اور معاشی طور پر کمزور ممالک کے عوام کے نصیب میں غربت جہالت اور بے روزگاری لکھی ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے آج بھی پاکستان میں ذاتیات کی سیاست چل رہی ہے اور سیاستدان کا کام ایک دوسرے کو گالی دینا بدنام کرنا اور الزام تراشی ہی رہ گیا ہے۔ عوام کے بنیادی مسائل تعلیم‘صحت اور روزگارسے ان کا کوئی سروکار نہیں۔ آج پاکستان معاشی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم اور بحران میں مبتلا ہے۔

اور بہتری کے آثار نظر نہیں آرہے آئی ایم ایف کے سہارے اور رحم وکرم پر جینے والی قومیں کہاں زندہ رہتی ہیں۔حکمرانوں کی سامنے مستقبل کا کوئی پلان یا ماڈل نہیں ہے۔سیاسی ماڈل ہو یا معاشی اس کی بنیاد محض جذباتیت اور روایتی نظام کے تحت نہیں ہونی چاہیے نظام کی کامیابی کی کنجی ایک گہری اور تدبیر کا مبنی سوچ کا تقاضا کرتی ہے آج کی دنیا کے جدید ترقی کے سیاسی اور معاشی ماڈل کو بنیاد بنا کر ہی ہم مستقبل کی تعمیر نو کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں اور خود کو دنیا کے ساتھ جوڑ کر نئے سیاسی اور معاشی امکانات کو پیدا بھی کر سکتے ہیں سیاسی تنہائی اور روایتی سوچ کو بنیاد بنا کر جو ملک بھی ترقی کے ماڈل کو اختیار کر ے گا اسے دونوں سیاسی و معاشی محاذپر پسپائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

اصل نقطہ مسائل کی درست نشاندہی اور آگے بڑھنے کے لیے درست تجزیہ منصوبہ بندی اور عملددآمد کا شفافیت سے جڑا نظام ہوتا ہے اداروں کے مقابلے میں فرد واحد کو بنیاد بنا کر ترقی کی نقشے بنا نا اس میں رنگ بھرنے کی مشق کوئی پائیدار نتیجہ نہیں دے سکے گی۔ جذباتیت کے ساتھ نعرے بازیوں سمیت خوشی نما نعروں اوردعوؤں کی بنیاد پر ریاستیں نہیں چلتیں بلکہ اگے بڑھنے کی جستجو کے ساتھ دانش اور حکمت سمیت دنیا سے کچھ سیکھ کرآگے بڑھنے کا عمل بھی ضروری ہوتا ہے۔پاکستان کا معاشی سطح کا ماڈل یا پلان پڑوسی اورمعاشی ممالک سے بہت پیچھے رہ گیا ہے اور معاشی ماڈل کے نتیجے میں پاکستان میں غربت اور معاشی سطح کئی نا ہمواریاں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں اس میں معا شی ترقی کے فوائد اشرافیہ تک محدود،

قرضوں کی لاگت اور آمدنی کے ذرائع پائیدار نہیں افراد اور انفراء سٹر کچر کی ترقی پر خرچ کا محدود ہونا‘اصلاحات کے نظام میں رکاوٹیں‘زرعی اورتوانائی کے شعبوں کی خرابیوں‘عدم کاروباری ماحول کا نہ ہونا اور بلخصوص چھوٹے کاروبار کے لئے مواقع کی کمی یا اصلاحات کا نہ ہو ہونااور ما حولیاتی تبدیلیوں سے جڑے مسائل شامل ہیں بنیادی طور پر ہماری داخلی یاعملی سطح سے جب بھی سیاسی اور بحران کو بنیاد بنا کر کئی رپورٹس یاتجزیاتی بنیادوں پر اسی طرح کے خدشات و امکانات کے پہلوؤں کی نشاندہی کی جاتی ہے کیونکہ آج کی عالمی دنیا میں ہمیں تنہائی کی بنیاد پر نہیں دیکھا جاتا اور جو کچھ بھی یہاں ہو رہا ہے اس پر عالمی دنیا کی نہ صرف آنکھیں کھلی ہوتی ہیں بلکہ اس کا اظہار بھی کئی شکلوں میں ہمارے سامنے آتا ہے

اس پر ہمیں بلا وجہ غصہ دکھانے کے بجائے غور و فکر کرنا چاہیے کہ ہم سے داخلی محاز پر کیا ایسی غلطیاں ہو رہی ہیں جو ہمارے سیاسی اور معاشی سطح پر اشاریوں کو چیلنج کررہے ہیں اور دنیا کے ساتھ داخلی علمی و فکری پہلو بھی سوالات اٹھا رہے ہیں اس وقت جب کہ عام انتخابات ہو چکے ہیں۔تو ہمارا سیاسی بیانیہ معاشی مسا ئل سے جڑے معاملات کی کوئی عکاسی نہیں کر رہا ہے اور نہ تو سیاسی جماعتوں کے پاس کوئی معاشی سطح کامربوط بیانیہ ہے اور نہ سیاسی جماعتیں ہی معاشی مسائل کو بنیاد بنا کر کوئی انتخابی منشور پیش کر سکتی ہیں سیاسی لیڈروں کے جانب سے جو بیانیے جاری کئے جا رہے ہیں ان میں غیر حقیقی سیاسی و معاشی مسائل جذبائیت کی سیاست کی سیاست الزام تراشیوں سے جڑی نظر آتی ہے اور ایسے نظر لگتا ہے

کہ ہمیں بطور ریاست کسی بھی قسم کے بحران کا سامنا نہیں ہے مسئلہ محض معشیت کی بدحالی یا بُرے اشاریوں یا مستقبل کے امکانات میں پہلوں کا ہی نہیں بلکہ ہم بطور ریاست سیاست جمہوریت اورمعیشت سمیت سیکورٹی اور ادارہ جاتی بحران میں کہیں بھی پھنس کر رہ گئے ہیں اور ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارے بحران کی نوعیت سیاسی یا معاشی کے ساتھ ساتھ ریاستی بحران کا بھی ہے جہاں مختلف اداروں کے درمیان بد اعتمادی اور ٹکر اؤ کا ماحول ہے‘ ریاست لانگ ٹرم منصوبوں پربہت گہرای کو بنیادبنا کر مسائل کا حل کی تلاش میں غیر سنجیدگی دکھائی دیتی ہے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم مجموعی طور پرایک ردعمل سیاست سے جڑے ہوئے ہیں اور ہم نے فوری طور پر معاملات میں خود کو اتنا الجھا رہا ہے کہ دور تک دیکھ کر منصوبہ بندی ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں ہم جانتے ہیں کہ ہماری ناکامیوں کی وجوہات کیا ہیں لیکن ہم خود کو تبدیل نہیں کرنانہیں چاہتے یا واقعی ہم میں سوچنے اور سمجھنے سمیت صلاحتیوں کا عملی فقدان ہے جو ہمیں پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے

ایک بنیادی نظریہ ہے کہ کیا ہم سیا ست کو بہتر بنائے بغیر یا ریاستی نظام میں بنیادی تبدیلیوں یا اصلاحات یا ایک بھاری بھر کم اسٹراکچرمیں تبدیلیوں کیے بغیرہم معاشی ترقی کے عمل کو ممکن نہیں بنا سکیں گے سیاست اور معیشت کی ترقی کا باہمی تعلق اور ایک دوسرے کو مظبوط کرنے کا عمل ہی ہماری مجموعی ترقی کی کنجی ہے۔ یہ کہنا ہے کہ ہم سیاسی نظام کو پس پشت ڈال کرمعاشی ترقی کے عمل میں شریک ہو سکتے ہیں بلکل غلط تصور ہے اسی طرح جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم سخت اور ناگزیر اصلاحات کو نظر انداز کر کے یاادارہ جاتی اصلاحا ت کے بغیرکچھ کر سکیں گے اور یہ بھی غلط سوچ کی عکاسی کرتی ہے ہمارا مجموعی مسئلہ یہ ہے کہ ہم خود کو داخلی محاذ پرنئی تبدیلیوں کے ساتھ جوڑنا نہیں چاہتے ہماری سیاست ہونا معشیت ہمارا بڑا انحصار عالمی دنیا سے ملنے والی سیاسی یا معاشی سطح کی امداد سے جڑا ہوتاہے

ہمارا خیال ہے کہ اس سیاسی اورمعاشی امداد سے ہم آگے بڑھ سکیں گے حالانکہ نہ تو ہم آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں بلکہ ہم ہر عالمی دنیا کے فیصلوں کی بالادستی ہو گئی ہے اور ہماری خودمختاری اور سلامتی کو بھی خطرات رہتے ہیں ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ سیاسی اور معاشی ترقی کا ایک بڑا شاریہ ہوتا ہے اور وہ عام آدمی یا افراد کی ترقی ہوتی ہے یہ جو کہا گیا ہے کہ یہاں صرف غربت بڑھ رہی ہے اور معاشی نا ہمواریاں بڑھ رہی ہیں اور اس کے نتیجہ میں داخلی سیاسی و معاشی انتشار ایک بڑی بد امنی انتہا پسندی اور شدت پسندی کی صورت میں ریاستی نظام کو مزید کمزور کر رہا ہے لوگوں میں ریاستی وحکومتی نظام پر شدید نوعیت کی تحفظات ہیں اور یہ عمل ریاست اور شہریوں کے باہمی تعلق کو بھی کمزور کر رہا ہے

ہمارا حکومتی ماڈل ہو یا انتظامی،سیاسی معاشی اور قانونی ماڈل بھاری بھر کم ماڈل کے طور پر موجود ہے جو ریاستی و حکومتی نظام پر ایک بڑے معاشی بوجھ کی عکاسی کرتا ہے فرسودہ روایتی اور پرانے خیا لات کی بنیاد نظا م کو چلانے کی خواہش ہمیں مسلسل پیچھے کی طرف دکھیل رہی ہے اور ہم جدیدیت کی طرف اور عالمی ترقی کے منازل طے کرنا چاہتے ہیں جبکہ ہمارا عمل کچھ بڑانہ کرنے کی عکاسی کرتا ہے ہمارے سیاسی طبقہ نے پورے ریاستی وحکومتی نظام کو اپنے مفادات کے لیے ضائع کیا ہوا ہے

اس کا نتیجہ حکومتی سطح پر کمزوری اور عام آدمی کی سنگین نوعیت کی مشکلات کی صورت میں دیکھنا پڑرہا ہے اس لئے اگر ہم واقعی کچھ تبدیل کرنا چاہتے ہیں جس میں خود کو تبدیل کرنے سمیت پورے ریاستی اورحکومتی نظام میں مثبت تبدیلیاں ہیں تو ہمیں اپنے موجودہ طرزعمل اور فیصلوں سے کھل کر بغا و ت کرنی پڑے گی ہمیں سیاسی اور معاشی محاذ پر ایک متبادل ترقی یا پلان درکار ہے جو موجودہ فرسودوہ نظام سے بلکل مختلف ہونا چاہیے اس میں ہمارا قومی مفاد جڑا ہوا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں