123

زندگی ہے یا کوئی طوفان/طاہر یاسین طاہر

جمہوری حکومتوں کا یہ اولین فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے حتٰی المقدور اقدامات اٹھائیں اور عوام کو زحمت سے بچائیں۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کئی ایک ممالک میں تو ایسا بھی ہوا کہ انھیں ایک آدھ دن کے لیے بجلی کی لوڈشیڈنگ بوجہ کرنا پڑی،انھیں بس صرف انتخاب کرنا تھا کہ یہ چند گھنٹے بجلی عوام کو دیں یا انڈسٹری کو۔ہم سب جانتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک کی معیشت اور ان کی ترقی کا انحصار ان کی چلتی انڈسٹری پر ہے مگر ان ممالک نے چند گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی زحمت عوام کو دینے کے بجائے اپنی انڈسٹری کو بجلی کی سپلائی معطل کر دی،مگر عوام کو کسی تکلیف اور آزمائش میں نہیں ڈالا۔جنوبی افریقہ ان ممالک میں سے ایک ہے جس نے اپنی کان کنی کی انڈسٹری کو بجلی کی سپلائی معطل کر کے لاکھوں ڈالر کا نقصان اٹھایا مگر اپنے عوام کو زحمت نہیں دی۔بلاشبہ فنی خرابی کے باعث گاہے ترقی یافتہ ممالک میں بھی بجلی کا بریک ڈاؤن ہوتا ہو گا۔ہم مگر جمہوری حکومتوں کی حکمتِ عملی اور ان کی جمہوری ذمہ داریوں کی بات کر رہے ہیں۔بے شک ہم جیسے ترقی پذیر ممالک میں حکمرانوں کی غلط حکمت عملیوں کے باعث عوام ہی تختہء مشق بنتے ہیں۔اگر ہماری حکمتِ عملی درست ہوتی تو ہم آزادی کے اتنے برس بعد بھی ترقی پذیر ہی کیوں ہوتے؟،ہمیں تو ترقی یافتہممالک کی صفمیں شامل ہو جانا چاہیے تھا یا کم از کم اس دوڑ میں کہیں آگے ہونا چاہیے تھا مگر ہم جہاں سے چلے تھے ابھی تک اگر وہیں ہی کھڑے نہیں ہیں تو اس سے آگے بھی نہیں بڑھ پائے۔
ہم نے ترقی کی تو دہشت گردی میں،تعصب میں،قتل و غارت گری کر نے میں، کلمہ گو مسلمانوں کو کافر بنانے میں ۔سوائے نفرت کا بیج بونے کے ہم کسی اور شعبے میں خود کفیل نہ ہو سکے۔کہاں کی ترقی اور کہاں کا امن؟نہ کوئی مسجد محفوظ نہ امام بارگاہ، نہ کوئی چرچ محفوظ نہ کوئی مسلم و غیر مسلم۔چاہتے ہم یہ ہیں کہ دنیا کے سر پر ہماری فتح کا تاج سجا رہے۔سچ مگر ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا۔پاکستان پیپلز پارٹی اپنے اقتدار کی خوبیاں گنواتے ہوئے نہیں بھولتی کہ اس نے اٹھارویں،انیسویں،بیسویں ترمیم کر کے جمہوریت کی بڑی خدمت کی،بھٹو کی جماعت والے یہ بھی بڑے لحن اور دبدبے سے کہتے ہیں کہ انھوں نے صوبوں کو خود مختاری دی اور جمہوریت کو قد آور کر نے میں ان کی پارٹی کا رہنما کردار ہے، وہ مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ صرف بجلی کی لوڈشیڈنگ نے ہی ان کے دور میں لوگوں کا جینا مشکل کر دیا تھا۔دہشت گردی اور کالعدم تنظیموں کی پنجاب میں بالخصوص سرگرمیاں پی پی پی کے دور میں مفاہمتی سیاست کی سیاہی میں پوشیدہ رہیں۔نون لیگ کی بات ہی کیا۔ ان کے پاس پہلے موٹر وے منصوبہ تھا اب میٹرو آگیا۔ بس ترقی ہی ترقی۔
سڑکوں اور پلوں کا جال ترقی کا ایک پیمانہ تو ہو سکتا ہے مگر یہ کسی بھی ملک کی کلی ترقی کی ضمانت نہیں، اس کے لیے کئی ایک مشکل مراحل طے کرنا پڑتے ہیں۔اقوامِ عالم کی تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ جن ممالک کی حکومتوں نے اپنے عوام کو زحمت میں ڈالے رکھا انھیں آخرِ کار زوال نصیب ہوا۔ہمارے ہاں جمہوریت صرف انتخابات کی گہما گہمی کا ہی نام بن کر رہ گئی۔اگرچہ جمہوری حکومتوں کے پاس گنوانے کو بہت کچھ ہے،جیسا کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عہد میں کئی ایک ادارے بنے،قانون سازی ہوئی مگر جمہوری مارشل لا بھی اسی عہد کا داغ ہے اور چینی کے حصول کے لیے لمبی لمبی لائنیں بھی اس دور کی تلخ یادوں میں سے ایک۔میاں برادران کا پہلا دورِ حکومت آیا تو انھوں نے عوام کو پیلی ٹیکسی کے حصول کی لائن میں لگا دیا۔دوسرا دورِ حکومت آیا توعوام کے لیے نئے دکھ تراشے گئے جبکہ موجودہ دورِ حکومت جسے بھاری مینڈیٹ والا دور جمہوریت بھی کہا جاتا ہے،اس نے عوام کی رہی سہی سکت بھی ختم کر ڈالی۔یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں لوگوں کو ایک دو لیٹر پیٹرول کے حصول کے لیے بھی گھنٹوں لائن میں لگ کر خوار ہونا پڑتا ہے؟یہ کیسا عہد ہے جس میں لوگ بجلی کو ترس رہے ہیں۔اس جمہوریت کو لوگوں نے کیا کرنا ہے جس میں انھیں موبائل کی سم اپنے نام رجسٹرڈ کروانے لیے کئی کئی گھنٹے قطار میں لگنا پڑتا ہے۔یہ بھی جمہوری دور ہی تھا جب وفاق میں پی پی پی کی حکومت تھی اور پنجاب میں نون لیگ کی، تو لوگوں کو چینی کے حصول کے لیے لائن میں لگا دیا گیا تھا۔اگرچہ مغرب میں بھی عوام لائن میں لگتے ہیں مگر وہاں صرف عوام ہی نہیں مقتدر طبقہ بھی اس لیے لائن میں لگتا ہے کہ اپنا کام اپنے نمبر پر نمٹائے،اس لیے نہیں کہ وہاں بلیک میلر اور ذخیرہ اندوز جمہوری حکومت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نفع کے لیے عوام کو لائن میں لے آتے ہیں۔وہاں قانون کی حکمرانی کو تسلیم کرتے ہوئے لائن لگتی ہے اور ہمارے ہاں جب بھی کہیں لائن لگی ہوتی ہے تو اس کا سادہ مطلب یہی ہوتا ہے کہ عوام تکلیف میں ہیں،اور تو اور وہ افراد جنھوں نے اپنی زندگی کے بہترین ایام اپنے ملک کی خدمت میں صرف کر دیے انھیں بھی پنشن کے نام پر کئی کئی گھنٹے لائنوں میں لگا دیا گیا ہے۔ایک چیز البتہ ہمارے ہاں بہت ارزاں ہے، نہ لائن کی ضرورت نہ کسی قطار شمار کی، انسانی خون، انسانی جاں،ادھر خود کش حملے میں لوگ شہید ہوئے اِدھر وفاق یا صوبے کی حکومت نے لاشوں کی’’بولی‘‘ لگا کر اپنی ذمہ داری ادا کر دی۔ اللہ اللہ خیر سلا!
یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں طاقت کا مرکز چند افراد اور ان کا خاندان ہے؟یہ کیسی جمہوری حکومت ہے جو ’’جمہور‘‘ کے لیے کوئی ایسا کام نہیں کر پائی جس سے پاکستانیوں کے اندر احساسِ تحفظ بڑھے؟اس بے چہرہ جمہوریت کا کسی نے کیا کرنا ہے جس نے بزرگ اور معصوم شہریوں کو بھی رسوائیوں کی قطار میں کھڑا کر دیا۔جمہوری حکومتیں بے شک اپنے عوام کی خیر خواہ ہوتی ہیں۔ہمارے بھاری مینڈیٹ والی جمہوری حکومت ہو یا کوئی اتحادی جمہوری حکومت،سب کا اس بات پر اتفاق رہا کہ عوام کولفظوں کے گورکھ دھندے میں الجھائے رکھو اور عوام کو عملاً یہ احساس دلا دو کہ جمہوریت بہترین’’انتقام‘‘ہے۔یہ امر واقعی ہے کہ ہم جیسے ملکوں میں جمہوریت نے عوام کو زخم بھی بہت لگائے ہیں۔شنید ہے کہ بھاری مینڈیٹ والی جمہوری حکومت آٹے اور بجلی کے آنے والے بحران پر صرف اجلاس ہی کیے جا رہی ہے ابھی تک ہنگامی اقدامات نہیں کر پائی۔جمہوری حکومتیں اپنے عوام کو سہولیات دینے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھاتی ہے مگر اس تلخ حقیقت کو تسلیم کیے بنا چارہ نہیں کہ ہم ابھی تک بے ثمر مگر اقربا پرور جمہوریت کے دور میں قطار باندھ کر زندگی کے ایام بسر کر رہے ہیں۔خواجہ درد یاد آتے ہیں
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے{jcomments on}

 

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں