ہر دور کے انسان کے لیے ایک میدان عمل ہوتا ہے جہاں انسان ہر طرح کے کردار میں نظر آتا ہے یہی کردار اچھائی اور برائی کو واضح کرتے ہیں ہر انسان کے پاس ذہن بھی ہوتا ہے اور روح بھی چاہے اچھا سوچے یا برا۔نیک بنے یا بد باطن بے لوث ہو یا مفاد پرست۔زندگی گزارنے کے لیے مثالی معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے ایسا معاشرہ جہاں انصاف ہو۔امن ہو اور ہرانسان کو اپنے مساوی حقوق دستیاب ہوں اور یہ اُسی صورت ممکن ہوتا ہے جب اکثریت اس کی آگاہی رکھتی ہو کسی بھی تعلق کی بنیاد خلوض نیت پر رکھی جاتی ہے اگر بنیاد مضبوط ہو تو تعلق کی ڈوری سے بندھا رشتہ بھی مضبوط ہوتا ہے اگر رشتے اور تعلق کی بنیاد ہی مفاد پرستی اور ہوس زر کی بنیاد پر ہو تو رشتے پائیدار نہیں ہوتے۔موجودہ دور میں بدلتی قدروں اور دولت کی فراوانی میں انسان اپنے حقیقی رشتوں کو بھی بھول جاتا ہے حتیٰ کہ مال ودولت کاحصول لالچی انسان کو سفاک بنا دیتا ہے وہ سارے رشتے ناطے بھول جاتا ہے مفادات اسے عقل وخرد سے بیگانہ کردیتی ہے۔سماج میں پیننے والی ہماری اپنی پیدا کردہ برائیوں نے ہماری زندگیاں اجیرن کررکھی ہیں۔وقت کے تقاضوں نے ہمیں جکڑا ہوا ہے معاشرتی رسم ورواج نے ہولناک داستانیں رقم کی ہیں ہمارا المیہ یہ ہے کہ آج سماج میں پیار محبت درگذر جیسے مثبت جذبات کے بجائے منفی رسم ورواج نے جگہ بنا لی ہے اس قدر قیبح رسمیں رائج ہیں جنہیں دیکھ کر گھن آتی ہے۔بہت افسوس ہوتا ہے جب کسی جنازے کے بعد اعلان سننے کو ملتا ہے کہ آنے والے تمام لوگ کھانا کھا کر جائیں اور کھانا اس غمزدہ خاندان کی جانب سے دیا جاتا ہے جن کا ایک فرد انہیں داغ مفارقت دے چکا ہوتا ہے۔کوئی اس رسم کے خاتمے کیلئے مثال بننے پر آمادہ نہیں۔کیونکہ اسے ناک کا مسئلہ بنا لیا گیا ہے۔موجودہ دور میں یہ رسم کسی ظلم سے کم نہیں کہ غریب آدمی اس کی ادائیگی کیلئے قرضوں کی بوجھ تلے دب جاتا ہے۔اسی طرح جہیز ہمارے معاشرے کی وہ بری رسم ہے جس کی عدم ادائیگی نے غریب والدین کی بیٹیوں کو گھر کی دہلیز پر ہی بوڑھا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اس رسم کے لعنت کو معاشرے میں پھیلانے کا سہرا اس ملک کی ایلیٹ کلاس کے سر ہے جو اپنی ناجائز کمائی کو سماج میں بگاڑ پیدا کرنے کے استعمال کرتے ہیں نمود ونمائش کی دلدادہ یہ مخلوق اس برائی کو صرف اپنی پروجیکشن کے لیے استعمال کرتی ہے ہمارا المیہ ہے کہ آج سماج میں پیار محبت جیسے مثبت جذبات کے بجائے منفی رویوں نے جگہ بنا لی ہے معاشرے کا ہر فرد صرف اپنے لیے زندہ ہے ہماری حیات کا مقصد صرف ہمارے گرد ہی گھومتا ہے اس کا سب سے زیادہ نقصان اس ملک کی غریب آبادی کو ہورہا ہے جہاں ناک بچانے کے لیے غریب والدین سخت شرائط پر قرض لے کر بیٹیاں بیاہنے پر مجبور ہیں۔میت کے گھر کھانا کھانے کی رسم کی خاموش حمایت کی طرح اس برائی کے خلاف بھی کوئی آواز اُٹھانے کوتیار نہیں کوئی تیار نہیں کہ وہ جہیزکو ایک لعنت قرار دے کر لینے سے انکار کردے۔گناہ کی دلدل میں اترنے والوں کو ذرا احساس نہیں کہ بادشاہت ہو یا فقیری ایک دن فنا ہونے کے لیے ہی ملتی ہے ہماری غفلت کا یہ عالم ہے کہ جو ملا اسے مال غنیمت سمجھ کر گلے لگا لیا یہ سوچے بغیر کہ اس مال کے دینے والے اس کا خراج کب تک ادا کرتے رہیں گے۔
148