143

راجہ پرویز اشرف کا یک طرفہ جھکاؤ

کسی زمانے میں سیاست کو عبادت کا درجہ دیا جاتا تھا۔سیانے کہتے ہیں کہ سیاست خوبصورت اور بہترین انسانی زندگی گزارنے کے اصول طے کرنے والا عمل ہے

لیکن وطن عزیز کی ”سیاست“کو بدل کر ہی رکھ دیا گیاہے اور خیر سے ہم نے سیاست میں بھی ”قبضہ گروپ“ ٹائپ کو متعارف کرا کر دنیا بھر میں اس شعبہ میں خوب نام کمایا ہے

خیروطن عزیز کی سیاست کئی رنگوں اور سائز میں دستیاب ہے بالکل اسی طرح ہماری حلقہ جاتی سیاست بھی رنگوں اور سائز کے ساتھ ساتھ برادری ازم میں بٹی ہوئی ہے گزشتہ الیکشن میں ایک بار پھر قانونگو ساگری کو مری کے حلقہ سے الگ کرکے گوجرخان کیساتھ لگا دیا گیا۔

جہاں سے پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ ترقیاتی کاموں کے حوالہ سے راجہ پرویز اشرف کا نام راولپنڈی بھر میں ایک اہم حیثیت سے جانا جاتا ہے

اورحلقہ کے عوام کی طرح قانونگو ساگری کے عوام کو یہ امید ہوچلی تھی کہ اب ہمارے دیرینہ خواب ضرور پورے ہونگے‘جن میں دس سال سے تعمیر کا منتظر روات ہسپتال ہو یا گیس کا مسئلہ۔بچیوں کے ڈگری کالج کا ایشوتھا

یا روڈ کی تعمیربچے بوڑھے سب پر جوش انداز میں
انکے قافلے کے ساتھ چل نکلے‘ مقامی سیاسی کھڑپینچ بھی ساون کے مینڈکوں کی طرح باہر نکلے اور انہوں نے اپنے قائد بدلے نظریات بدلے تو کسی نے پارٹی بدلی ن لیگ والے پیپلز پارٹی کے ہمرکاب ہوئے تو تحریک انصاف والے ن لیگ کی کشتی میں سوار ہوئے

اور پیپلز پارٹی والے تحریک انصاف کی کشتی پر بیٹھ گے الیکشن میں راجہ پرویز اشرف کی کامیابی اس
لیے یقینی نظر آرہی تھی کہ اس ملک کا وزیر اعظم اور سپیکر جیسے پاور فل عہدے پر رہنے والا اگر کامیاب ہوگا

تو مسائل چند دنوں میں حل ہونگے لیکن وہی ہوا۔الیکشن ختم ہوا تو راجہ پرویز اشرف حلقہ سے یکسر غائب ہوگئے اور اس حلقہ کی بھاگ دوڑ انہوں نے اپنے بچے اور چند مقامی سیاسی کھڑپینچوں کے حوالے کردی چند دن قبل انہوں نے گوجرخان میں نادار سینٹر کا افتتاح کیا تومجھے لگا

کہ جیسے قانونگو ساگری اور روات بیلٹ والے سیاسی کھڑپینچوں کے منہ پر چپیڑ ماردی گئی ہو روات ہسپتال جو گزشتہ دس سال سے تعمیر کے تمام مراحل طے کرچکا ہے اور اب کسی مسیحا کا منتظر ہے

جو اسکا افتتاح کرے۔لیکن تاحال راجہ پرویز اشرف کی اس طرف توجہ ہے نہ نظر ایک ایسا منصوبہ جس سے روات کے گرد نواح میں رہنے والے ہزاروں لوگ مستفید ہونگے کس لیے مکمل نہیں ہوپا رہا ہے

اور بدقسمتی سے ایسے ممبر قومی اسمبلی جو وزیر اعظم اور سپیکر جیسے کلیدی عہدوں پر رہا ہواور حکومت میں بھی انکی پارٹی بڑے عہدوں پر براجمان ہو اگر ان سے ایک مکمل تعمیر شدہ ہسپتال کا افتتاح نہ ہوسکے تو میرے خیال سے اب راجہ صاحب کو ریسٹ کرنی چاہیے۔

الیکشن کمپیئن کے دوران کوریج کے سلسلہ میں زاتی طور پر انکے ساتھ رہا لیکن انکی وہ باتیں اور وہ دعوے تاحال ہوا میں ہیں اس قانونگو کے عوام کا ایک ہی مطالبہ تھا گیس اور روات ہسپتال اور دونوں دعوے خلا میں ہیں جبکہ راجہ صاحب کا سیاسی خلا پر کرنے کے لیے انکے بیٹے بیرسٹر شاہ رخ مخصوص ٹیلی فونز کال پر مخصوص لوگوں تک ہی آ جارہے ہیں۔ راجہ صاحب حلقہ کے عوام نے آپکو ووٹیں کتوں کے تماشے بیل دوڑ کبڈی میچوں میں مہمان خصوصی بننے کے لیے نہیں دیے تھے

بلکہ انہوں نے آپکی گوجرخان کی کارگزاری دیکھ کر منتخب کیا تھا اگر آپکا یہی طرز سیاست رہا تو چوہدری نثار کی سیاست سے عبرت حاصل کریں اور اس سے پہلے یہ حکومت کوئی نیاء ایڈونچر کرے عوام سے کیے گئے وعدے پورے کرنے کی کوشش کریں بصورت دیگر جناب کی سیاست کی جگہ مطالعہ پاکستان کی کتاب تو ہوگی

عوام کے دل نہیں ہوگا اسی حلقہ سے صوبائی اسمبلی کی سیٹ سے ن لیگ کے ٹکٹ پرکامیابی سمیٹی ہے شوکت بھٹی نے گزشتہ دنوں انکا ایک کلپ سوشل میڈیا کی زینت بنا تھا جس میں وہ صوبائی اسمبلی میں دبنگ انداز میں تحریک انصاف کی قیادت پر گرج برس رہے تھے شوکت بھٹی کو ویسے بھی تقریر کرنے کا شوق اور جوش دونوں ہیں انکی سیاست کا پسندیدہ مشغلہ تھانہ میں اثرورسوخ ہے

اسکا عملی نمونہ انہوں نے کچھ عرصہ قبل دینے کی کوشش کی تھی لیکن ماسوائے چند اہلکاروں کے وہ کچھ زیادہ نہ بگاڑ سکے اب تو خیر سے جس کیخلاف انہوں نیااعلان جنگ کیا تھا وہی SHO تھانہ گوجرخان تعینات ہوچکا ہے خیر چند ہفتے قبل انہوں نے بڑی کروفر سے مندرہ چکوال روڈ کے رہائشیوں کے لیے انکی دہلیز پر نہ صرف اراضی سینٹر کا قیام کروایا بلکہ اسکا افتتاح بھی کر دیا لیکن صد افسوس الیکشن میں انکے سامنے گھوڑوں کی طرح ناچنے والے صاحب بہادر کو کہا جاتا کہ جناب یہ اولین ترجیح ہونی چاہیے

لیکن روات ہسپتال بننے سے عام آدمی کو بہتر سہولت میسر ہونی تھی جو علاقائی کھڑپینچوں سمیت کسی کو کسی صورت شائید قابل قبول نہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر اعلی پنجاب کے سامنے تحریک انصاف کی قیادت کیخلاف چیخنے چھنگاڑنے کے بجائے حلقہ کے مسائل بالخصوص روات ہسپتال کو فی الفور چلانے کے اقدامات کا مطالبہ کیا جاتا دوسری طرف تحریک انصاف کے دونوں امیدوار جو جیتنے کے دعویدار ہیں

وہ ایسے غائب ہوئے جیسے انکا یہاں کے عوام سے کوئی رشتہ نہیں جو سلوک شاہد خاقان عباسی صداقت عباسی اینڈ کمپنی نے کیا تھا اب وہی سلوک راجہ پرویز اشرف اینڈ بھٹی برادرز قانونگو ساگری کے عوام سے کرتے دکھائی دے رہے ہیں اس ہسپتال کو چلانے کے دعوے تو قمر اسلام راجہ نے بھی کررکھے ہیں لیکن انکی اپنی سیات ایک نومولود کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے

قانونگو ساگری کے عوام کو مقامی کھڑپینچوں کے بجائے اٹھنا ہوگا تب جا کر گیس‘ گرلز ڈگری کالج سمیت روات ہسپتال جیسے منصوبے مکمل ہونگے بصورت دیگر انہیں بہروپیوں کے سامنے گھوڑوں کی جگہ ناچنا اور آوے گا بھئی آوے کے نعرے مقدر ہونگے ہماری سیاست کی حالت تو اس کہانی سے ملتی جلتی ہے

ایک شخص قصائی کی دکان کے سامنے لگژری گاڑی میں رکا اورقصائی سے ایک کلو گوشت مانگااتنے میں ایک پرانے ماڈل کا ڈالا آیا ڈالے والے نے پانچ کلو گوشت تین کلو کلیجی اور دو دیسی مرغوں کا آرڈر دیالگژری گاڑی والا حیران تھا کہ یہ کون ہے؟والا کھڑا رہا?پھر قصائی سے پوچھا: یہ بندہ کون ہے اور کیا کرتا ہے قصائی نے جواب دی یہ کوئی کام نہیں کرتا لیکن اس نے تین مال دار بیواؤں سے شادی کر رکھی ہے

جن کے شوہر بہت امیر تھے اور بہت مال چھوڑ کر فوت ہوئے یہ سن کرلگژری گاڑی والے نے والے نے دس کلو گوشت پانچ کلو کلیجی سات کلو قیمہ لیا جیسے ہی گھر پہنچا تو بیوی نے حیرانی پوچھااتنا کچھ اٹھا لائے ہو کس کی دعوت کر رہے ہو کہنے لگا: کوئی دعوت نہیں بس میں اپنے مال کو انجوائے کرنا چاہتا ہوں

اس سے پہلے کہ کوء ڈالے والا آ جائے تو حضور درخواست ہے کہ اس سے پہلے کہ کوئی ڈالے والا آجائے حلقہ کے عوام سے کیے گے وعدے پورے کریں بالخصوص روات ہسپتال کا فی الفور افتتاح کریں

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں