راجہ خالد‘ ہمدرد شخصیت 253

راجہ خالد‘ ہمدرد شخصیت

میں نے اپنی زندگی میں بہت کم لوگ دیکھے ہیں جو اندر باہر سے ایک جیسے اور صاف شفاف پوتے ہیں۔ راجہ خالد آف بکرا منڈی میرے بڑے بھائی کا درجا رکھتے ہیں اور بڑا بھائی بن کر بھی سامنے آتے ہیں۔

گفتگو کے دوران دھیمے لہجے میں بات سنتے اور ہلکے لہجے میں بات کر کے محفل کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ آپ ایف بی آر سے گریڈ 17 میں ریٹائیرڈ ہوئے ہیں۔

میں نے جب بھی راجہ خالد کو دیکھا یہ معلوم نہیں کن سوچوں میں گم ہوتے جاتے ہیں اور پھر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ مخلص انسان کسی غریب کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

کچھ دن پہلے میں نے انکی وال پر ایک پوسٹ دیکھی تو کافی افسردہ ہو گیا۔ پھر میں نے خالد بھائی سے پوچھا کہ یہ بچی کون تھی۔ بس اسکے بعد کہنے لگے کہ میں گاڑی میں بیٹھا ہوا تھا تو اچانک یہ شہزادی میرے پاس آء اور کہنے لگی انکل مجھے دس روپے دے دیں۔

جب میں نے اسکی خوبصورت شکل دہکھی تو میں سکتے میں آ گیا کہ غربت کتنی عجیب چیز ہے۔ مجھ سے جو ہو سکا میں نے کر دیا مگر اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ یہ لڑکی اور اس کا خاندان نہ تو صابن استعمال کرتا ہو گا

اور نہ ہی کریم اور شیمپو۔ مگر ٹیکس ہر چیز کے ادا کرتے ہوں گے۔ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ بروز قیامت جہنم کی آگ میں سسک سسک کر جلو گے مگر موت نہیں آئے گی ماسوائے ان حکمرانوں کے جو حکمران ہو کر بھی حکمران نہیں رہے۔
بس یہ بات سن کر میں بھی اسی سوچ میں مبتلا ہو گیا۔ اس کے بعد میں نے ماضی کی تاریخ پر نظر دوڑائی تو پھر وہ لمحات محسوس کئے کہ خوشی نے سماں باندھ دیا۔

راجہ خالد 1962 میں پیدا ہوئے۔ کہنے لگے کہ میرے دادا کا نام راجہ میر زمان تھا اور وہ زمیندار تھے۔ میرے گاؤں کا نام بانیاں ہے جو اسلام آباد میں واقع ہے۔

میرے دادا نے 1956 میں ایوب خان کے دور میں الیکشن لڑا تھا اور بہت بڑے جاگیردا کو شکست دے کر جیت گئے تھے۔

کہنے لگے میرے تایا کا نام راجہ محمد اکبر اور چچا کا نام راجہ سردار اصغر ہے۔ ہم سب 1965 میں اسلام آباد سے بکرہ منڈی آ گئے تھے۔

جب حکومت پاکستان نے اسلام آباد بنانے کے لیے ہم سے زمین لے لی تھی۔ میرے دو بھائی ہیں جنکے نام راجہ محمد سپارش اور راجہ ظفر محمود عرف بوبی ہیں۔

جب انہوں نے اپنے دادا کے بارے میں بتایا تو چند سیکنڈز کے لیے خاموش ہو گئے پھر خاموش آواز میں کہنے لگے کہ میرے دادا انتہائی شریف النفس انسان تھے۔

غریبوں کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ہہ بات کہ کر اندر سے رو رہے تھے مگر باہر سے خشک مسکراہٹ لیے بیٹھے ہوئے تھے۔

کہنے لگے کہ میرے دادا راجہ میر زمان نے بانیاں کے مولوی کو مکان بنا کر دیا اور اپنے گاؤں کے بے شمار افراد کو گھر کیلے زمینیں دے کر خود کو خوش کرتے رہے اور ساری زندگی گاؤں کے لوگوں کی دعاؤں میں زندہ رہے۔

کردار میں انکا کوئی ثانی نہیں تھا۔ کہنے لگے میرے والد صاحب نے بھی اپنے والد یعنی میرے دادا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے زندگی گزار دی۔ محلے کی عورتیں انہی بھائی اور بڑا کہ کر بلاتی تھیں۔

خالد راجہ بھی اسی نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ اگر کوئی عورت اپنی عمر سے زیادہ بھی سامنے آ جائے تو اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیتے ہیں اور پھر لوگ کہتے ہیں کہ خالد صاحب سر اور کندھا تو آپ کو آگے کرنا چاہیے تھا۔ اس کا جواب خالد بھائی اس طرح دیتے ہیں۔

”یہ عادت میں نے اپنے باپ اور دادا سے سیکھی ہے لہذا یہ اسی طرح رواں دواں رہے گی”.خالد بھائی اندر اور باہر سے ایک جیسے لگتے ہیں۔ جو بات سامنے کرتے ہیں

وہی بات ہر جگہ کرتے ہیں۔ کہنے لگے جب میں کسی لاوارث بچے بچی یا کسی عورت کو دیکھتا ہوں تو ساری رات سو نہیں سکتا۔ انکی باتوں سے میں نے یہ محسوس کیا کہ ہوسکتا ہے

یہ اللہ کا بندہ کھانا کھاتے ہوئے اپنا کھانا کسی غریب کو دے کر خود بھوکا رہ جاتا ہو۔ یہ محسوس کرنے کیلئے کہ پیٹ کو بھوکا پیاسا رکھ کر دیکھوں یہ غربت ہوتی کیا ہے۔ اور مجھے پورا یقین ہے کہ یہ بندہ بہت دفعہ ایسا کر چکا ہوگا اور یہ بات میرے رب کو بہت زیادہ پسند ہے۔

خالد بھائی کو اللہ تعالیٰ نے بیٹوں اور بیٹیوں سے نوازا ہے۔ بیٹوں کے نام ملاحظ فرمائیں۔ ایک کا نام راجہ وقاص خالد جو انگلینڈ میں ہوتا ہے۔ دوسرا راجہ عدیل خالد جو کاروبار کرتا ہے

اور تیسرا راجہ علی رضا خالد ہے جو وکیل ہے ہائیکورٹ کا۔یہ ساری فیملی انگور کے گچھوں کی طرح اتحاد کے بندھن میں بندھی ہوئی ہے اور یہ اللہ کی طرف سے نچھاور کی گئیں لڑیاں ہیں۔

خالد بھائی انتہائی نفیس اور شریف قسم کے انسان ہیں۔ گھر والوں کو کہے بغیر معلوم نہیں کس کس کی زندگی کو چلا رہے ہیں۔ یاد رکھیں جو اللہ نے ہم سب کو دیا ہے

اگر وہ نہ دیتا تو ہم کیا کرتے۔ لہذا اللہ کے دیے ہوئے میں سے بہت کچھ مستحق افراد کو دے دیا کریں کیونکہ وہ دیکھ رہا ہوتا ہے کہ میرا یہ بندہ میرے دیے ہوئے میں سے غلط کاموں پر خرچ کرتا ہے یا بہترین کاموں پر۔ خالد صاحب کا ایک اصول ہے کہ اللہ دے کر بھی آزماتا ہے

اور لے کر بھی آزما ہی رہا ہوتا ہے۔ لہذا جس کو اللہ تعالیٰ دے گا بروز قیامت اسکا حساب بھی اسی سے لے گا۔ اور جس کو نہیں دے گا

وہ بغیر حساب کے جنت میں داخل ہو جائے گا۔ اج میں اور خالد بھائی آپس میں بات چیت کر رہے تھے تو ہم نے ایک بات ڈسکس کی کہ اگر میں اپنے کسی ملازم کو ایک لاکھ روپے دیتا ہوں اور اس سے کہتا ہوں کہ بازار سے یہ سب چیزیں لے آؤ۔

اور ساتھ ایک اور ملازم کو بھیج دیتا ہوں۔ جب وہ بندہ سارا سامان واپس لے کر آتا ہے تو میں حساب کس سے لوں گا؟؟؟ حساب اس سے لوں گا جس کو لاکھ روپے دیئے تھے جو ساتھ بھیجا تھا اس سے کوئی سؤال نہیں کروں گا۔

لہذا اللہ پاک نے جو دیا ہے اسے بہترین انداز میں خرچ کریں تاکہ آگے جا کر پچھتانا نہ پڑے۔ خالد بھائی اور میں نے بہت دیر گپ شپ کی اور محسوس ہوا کہ جب ایک دوسرے کے قریب بیٹھو تو ایک بزورگ کسی دس برس کے بچے سے بھی بہت کچھ سیکھ لیتا ہے۔

آج معلوم ہوا کہ آپس میں مل بیٹھنے میں انتہا درجے کا سکون محسوس ہوتا ہے۔

چھوڑ دی ہم نے کشتی تیرے نام پر
اب کنارے لگانا تیرا کام ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں