103

راجہ انور،بُک کارنر اور دہشت گرد شہزادہ

مشہور انقلابی لیڈر اور خطہ پوٹھوہار کے سرخیل راجہ انور جنیوا میں اقوام متحدہ کے 90-1988ء کنسلٹنٹ برائے امور افغانستان رہے ہیں اور 77-1973ء سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مشیر بھی رہے ہیں۔ موصوف نے عوام کے حقوق و عوامی راج کے لیے اور جمہوریت کی بحالی کی خاطر تین فوجی آمروں کا سامنا کیا، ماریں کھائیں، سزائیں بھگتیں اور جیلیں کاٹیں۔ بغاوت کے کئی بے بنیاد مقدمات بنائے گئے۔ 1968ء میں جنرل ایوب خان نے قید کیا اور 1970ء میں انہیں جنرل یحییٰ خان نے قید کیا۔ 1978ء میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں غیر حاضری پر 14 سال قید کی سزا سنائی۔ 1979ء میں راجہ انور جب کابل پہنچے تو وہاں انہیں سول آمروں نے 83-1980ء تین سال کے لیے پل چرخی جیل میں ڈال دیا۔

چنانچہ دنیا بھر میں یہ خبریں نشر ہوتی رہیں کہ ”راجہ انور کو افغانستان میں پھانسی دے دی گئی ہے“ اور کبھی یہ خبریں بھی شائع کی جاتی رہیں کہ ”مُرتضیٰ بھٹو کے حکم پر راجہ انور کو کابل میں گولی مار دی گئی ہے“ اور کسی نے اس طرح سُرخی سجائی کہ ”غداری کے شبہ پر مُرتضیٰ بھٹو نے اپنے ساتھی راجہ انور کو قتل کرا دیا“ مگر معلوم نہیں کہ یہ کون سی نیوز ایجنسیاں تھیں یا کوئی اور ہی ایجنسیاں تھیں جنہوں نے کبھی بھی ان جھوٹی خبروں کی تردید نہیں کی اور نہ ہی آج تک کسی نے اپنے ان کالے کارناموں کی کبھی معذرت کی ہے۔ کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے لیکن ان بے شرموں کو کیا پتا کہ وہ کیا ہوتی ہے۔ 1983ء میں راجہ انور کابل سے جرمنی چلے گئے اور پھر طویل جلاوطنی کے بعد 1998ء میں جب اپنے وطن واپس پہنچے تو والدین سمیت ان کا آدھا خاندان قبرستان پہنچ چکا تھا۔

ان کے لیے سب کچھ بدل چکا تھا اور وہ بھی اب محض ملزم راجہ انور نہیں رہے تھے۔ بفضل اللہ اب وہ دنیائے ادب میں متعدد مقبول ترین کتب کے مصنف، سابق چیئرمین PEF، راجپوت بکھڑال قبیلے کے مدبر و معتبر بزرگ، 70 کی دہائی کے معروف سٹوڈنٹ لیڈر، سابق مشیر خاص پی ایم بھٹو، بائیں بازو کے ممتاز ترقی پسند فلسفی، مایہ ناز دانشور کالم نگار اور بین الاقوامی شہرت یافتہ مفکر و فلاسفر راجہ انور ہیں۔ آج میں آپ کو ایک راز کی بات بھی بتلاتا چلوں کہ راجہ انور کی ان تمام تر کامرانیوں اور شادمانیوں کے پیچھے ان کی اہلیہ مادام بصیرہ راجہ جی کا ہاتھ ہے۔

میں نے آج تک میڈم بصیرہ راجہ جیسی خوش شکل و خوش مزاج، مخلص و ہمدرد اور وفادار و غمگسار نہ تو کوئی اور بی بی دیکھی ہے اور نہ ہی کسی کی ایسی بیوی دیکھی ہے جو اللہ قادر و قدیر نے راجہ انور جی کو عنایت فرمائی ہے۔ راجہ انور نے مجھے کئی بار بتلایا کہ میرے خاص و عام تمام تر کام، مالی معاملات، زمین و کاروبار اور گھر بار کے نظام بس بصیرہ ہی دیکھتی ہیں، یہی میرے اخباری کالم کاٹتی ہیں انہیں سنبھالتی ہیں، سب اخبارات و کتب پڑھتی ہیں اور سب سے بڑی بات یہ کہ مجھے لکھنے کے لیے مفید و منفرد اور تازہ و معیاری مواد بھی مہیا کرتی ہیں۔ ایک الیکشن ہارنے کے بعد راجہ انور مجھے کہنے لگے کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے ، کاش ہم بصیرہ صاحبہ کو حلقے میں بھیجتے اور کہتے کہ خواتین میں آپ مہم چلائیں، اگر ہم ایسا کر گزرتے تو ہم چند سو ووٹوں سے ہارتے نہ بلکہ کئی سو ووٹوں سے جیت بھی جاتے ۔

ملک کے معروف اور مستند اشاعتی ادارے بک کارنر جہلم نے حال ہی میں راجہ انور کی تمام کتب ایک بار پھر سے شائع کر کے قارئین ادب کو مدتوں بعد راجہ انور سے ملوا دیا ہے۔ ان کتب کے نام میں مندرجہ ذیل ہیں۔ بڑی جیل سے چھوٹی جیل تک، ہمالہ کے اس پار، جھوٹے روپ کے درشن، مارکسی اخلاقیات، بازگشت، بن باس، دہشت گرد شہزادہ، قبر کی آغوش اور ماضی کا حمام۔ میرے خیال میں عہد موجود میں کسی بھی کتاب کی شہرت و مقبولیت کے لیے بس بُک کارنر کا نام ہی کافی ہوتا ہے۔ پبلشرز تو اور بھی بہت ہیں مگر امر شاہد اور گگن شاہد کی تو بات ہی ”وکھری“ ہے۔ بک کارنر ایک عمدہ اور معیاری اشاعتی ادارہ ہے جس کی بنیاد گگن شاہد اور امر شاہد کے والد بزرگوارم شاہد حمید نے رکھی تھی جن کے بارے میں برادرم رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ ”مرحوم شاھد حمید کی محنت و ہمت کی داستان سن کر دنگ رہ گیا کہ کیسے انہوں نے جہلم کے ایک کونے میں چھوٹی سی لائبریری سے سفر شروع کیا اور آج بُک کارنر ایک برانڈ بن چکا ہے جس کی دھوم پاکستان سے بھارت تک پھیلی ہوئی ہے“۔ فوجی اللہ کے سپاہی اور بھٹو سے بے نظیر تک میری ان دو کتب کے مسودات، صدر زرداری، قمر زمان کائرہ، پرویز اشرف، گورنرKP، ڈاکٹر نفیسہ شاہ، مولا بخش چانڈیو، سنیٹر شہادت اعوان، راجہ انور اور سہیل وڑائچ کے تاثراتی مضامین سمیت تیار ہیں۔ میری یہ خواہش و کوشش ہے کہ بک کارنر ہی میری کتب شائع کرے لیکن یہ دونوں بھائی بات ہی نہیں سنتے۔ کوئی ہے جو انہیں بتلائے اور سمجھائے کہ شاھد رشید کی دعا لگتی ہے اور بددعا بھی ۔ کاش پِسرانِ شاھد حمید فوراً شاھد رشید سے پوچھیں کہ بتا تیری رضا کیا ہے۔

راجہ انور جی کی دیگر سب کتب پر بھی انشاءاللہ الگ الگ کالم لکھوں گا، یہ مجھ پہ قرض ہے اور فرض بھی البتہ آج ہم بات کر لیتے ہیں راجہ انور کی کتاب ”دہشت گرد شہزادہ“ کی ۔ اس میں آپ پڑھیں اور جانیں میر مُرتضیٰ بھٹو کی کہانی راجہ انور کی زبانی۔ یہ ایک عالمی شہرت کی حامل کتاب ہے۔ معروف صحافی و کالم نگار خالد حسن نے ”ٹیررسٹ پرنس“ کے نام سے انگریزی زبان میں ترجمہ کر کے اس کتاب کو ساری دنیا میں پہنچا دیا ہے۔ دہشت گرد شہزادہ درحقیقت میر مرتضی بھٹو اور الذولفقار کی دہشت گرد کارروائیوں کی داستان ہے۔ راجہ انور کا جرم تو بس اتنا تھا کہ وہ مرتضیٰ بھٹو کو شدت و انتقام و انتہا پسندی سے روکتے تھے لیکن مرتضیٰ بھٹو کے اندر من کے مندر میں اس قدر توڑ پھوڑ تھی کہ وہ ہمیشہ شک و بے یقینی کی کیفیت میں ہی مبتلا رہتا تھا اور یہ اس کی بدگمانی و نادانی ہی تھی جس نے یہ سوچ لیا تھا کہ راجہ انور غدار ہو گیا ہے۔ وہ کیا جانے کہ راجہ انور زندہ لاشوں میں وہ زندہ شخص ہے جس کی ڈائریکٹری میں جھوٹ، منافقت اور نفرت بالکل بھی نہیں بلکہ محبت ہی محبت ہے۔ مرتضیٰ بھٹو راجہ انور کی جان کا دشمن ہو گیا تھا شاید یہ نہیں جانتا تھا کہ مارنے والے سے بچانے والا بہت بڑا ہے۔ جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ میں نے راجہ انور کو کہا تھا کہ۔

راجہ تری فکر آفاقی اور فرد افکار نیارے
تاریکی میں چاند سے چمکیں روشن حرف ستارے
قلم کا تجھ کو خراج ہے میرا حرفوں کے نذرانے بھی
قلم ترے سے پھول پھوٹیں قدر کوئی گر جانے بھی

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں