اقوام کے عروج و زوال کی تاریخ جغرافیائی حدود اور قومی اقدار کے آی60نے میں عکس ریز ہوتی ہے جو دنیا میں انسانی آبادکاری اور علاقائی و مذہبی حد بندیوں کے تسلسل کے ساتھ وابسطہ ہے مگر جہاں اسلام کا تصور ملت رونما ہوتا ہے وہاں تمام حد بندیاں محو ہوکر فقط نظریہ توحیدورسالت باقی رہ جاتا ہے۔ اسلام ایک مذہب ہی نہیں بلکہ نظریہ حیات کا نام ہے۔جغرافیائی، لسانی،علاقائی و قومیتی حدود دیگر مذاہب کو متعارف کرواتی ہیں مگراسلام کا مفہوم اس سے ماورا ہے۔ روے60 زمین کے جس خطے پر کلمہ گو موجود ہے وہیں اسلام اور ملت اسلامیہ کا وجود ہے۔برصغیر پاک و ہند کے خطے میں اسلام کا دروازہ سندھ کے راستے اس وقت ہموار ہوا جب محمد بن قاسم ؒ نے فتوحات کی نئ تاریخ رقم کرتے ہوے60 ملتان تک کا علاقہ آٹھویں صدی عیسویں کے آغاز میں اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ اسلام کا مزاج ہمیشہ سے تمام ادیان باطلہ سے مختلف رہا ۔ انسانی تفسیات اور عقلیات کے تقاضوں کے موافق ہونے اور حسن خلق کے اعلیٰ ترین مظاہروں کی بدولت ہندوستان میں بہت تیزی سے فروغ حاصل کیا ۔ اس حقیقت کے اقرار میں مزال60قہ نہیں کہ ہندوستان پر صدیوں سے ہندو سلطنت قائم تھی اور بت پرستی کے جن عقای60د سے وابسطہ تھی ان کا شمار غیرالسلامی ادیان میں ہوتا ہے۔مگر اسلام نے اس خطے پر گہرے نقوش ثبت کیے اور چند برسوں میں برصغیر کے طول عرض سے صداے60 اسلام بلند ہونے لگی۔مسلمان دس صدیاں اس خطہ ارضی پر حاکم بن کر رہے۔ اس عرصہ کے دوران صوفیا کی درگاہیں جہاں خدمت خلق اور اسلام کی روشنی پھیلانے میں برابر مصروف رہیں وہیں مسلم تحریکیں اور گروہ دنیا کے دیگر خطوں میں اسلام کا پیغام پہنچاتے رہے۔چنانچہ جس دن ہندوستان کا پہلا فرد حلقہ بگوش اسلام ہو اسی دن دوسری قوم اور دو قومی نظریہ وجو میں آیا۔ہندوستان میں مسلم دور حکومت میں اسلام کے زریں اصولوں کے عین مطابق مسلم فرما نرواو60ں نے دیگر مذاہب سے وابسطہ اقوام سے جس حسن سلوک اور رحمدلی کا مظاہرہ کیا اس کا ثبوت خو د ہندو مصنفین کی کتب میں مسلم حکمرانوں کی شان میں لکھے گ60ے قصیدوں کی شکل میں ملتا ہے۔بعض روایات کے مطابق محمد بن قاسم کے بت تراش کر مندروں میں سجاے60 گ60ے ان کی پوجا کی جاتی اور انہیں لکھ داتا کہا جاتا ۔الغرض ایسی ہزاروں مثالیں جو کتب تاریخ میں رقم ہیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے مطیع فرمان ہندو اور دیگر اقوام آزادانہ زندگی بسر کرتے رہے۔مسلم دور حکومت اس وقت زوال پزیر ہوا جب انگریز تجارت کے بہانے ہندوستان میں داخل ہوے60 اوریہاں کے مقامی حکمرانوں میں بغاوت بپا کرنے کے بعد1857میں تخت و تاج پر قابض ہوے60۔فرنگی سامراج کی حکومت کے قیام کے بعد ہندوو60ں نے مسلمانوں کو مطیع فرمان کرنے اور اپنی حکومت کو بحال کرنے کے لیے کاوشوں کا آغاز کیا، دوسری جانب مسلمان اب محکومی کی زندگی بسر کرنے پر مجبورتھے۔ اس عرصہ میں مسلم دشمن ہندو تحریکوں نے بھی خوب پذیرائی حاصل کی جن میںآریاسماج،گ60ورکھشا،شدھی،ہندی اور راشٹریہ سیوک سنگھ شامل ہیں جن سب کا مشترک ایجنڈامسلمانوں کے خلاف عوام میں تعصب اور بغاوت کو فروغ دینا،ان کی عبادت گاہوں اور مذہبی شعای60ر کی توہین کرنا،اردو کے بجاے60 ہندی کو فروغ دینا اور اہل اسلام کو ہندوستان میں ذلیل و رسوا کرنا تھا۔ ان تحریکوں کے باقیات آج بھی بھارتی حکومت کا حصہ بن کر گاہے بگاہے مسلم دشمنی کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ہندو مسلمانوں کے حسن سلوک اور رواداری کو فراموش کرتے ہوے60 ان کا جینا دوبھر کر رہے تھے۔ ان حقال60ق کے پس منظر میں تحریک آزادی کا آغاز ہوتا ہے۔اگرچہ مسلمان صدیوں حکومت کرتے رہے مگر اس عرصہ کے دوران ہندو، سکھ ،عیسائی اور دیگر اقوام آزادانہ زندگی بسر کرتی رہیں مگر جب مسلم حکومت کو زوال نصیب ہو ا تو مندرجہ بالا سطور میں رقم کیے گے60 حقال60ق کی روشنی میں یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ یہ دو الگ قومیں کبھی یکساں نہیں ہوسکتیں ۔ان کے تمدن ، تہذیب، ثقافت ،مذہب اور نظریات میں وسیع خلیج حائل ہے۔یہی دو قومی نظریہ ہے جو قرارداد پاکستان 23 مارچ 1940میں کیے گئے عہد کی تکمیل کی صورت میں 1947ایک آزاد مسلم ریاست کے قیام کی بنیاد بنااور بقول قای60داعظم کے،’’پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جس دن ہندوستان کے پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا‘‘۔پاکستان کا مفہوم بہت وسیع ہے اس کے قیام میں ایک روحانی اور انقلابی تحریک کی اساس شامل ہے۔ یہ وطن ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنا ہے۔آج کا دن جہاں اپنے اجداد کے تاریخی کارناموں پر نظر ڈال کر داد تحسین دینے اور اپنی ملت پر فخر کرنے کا دن ہے وہیں یہ ہم سے احتساب کا متقاضی بھی ہے۔ہم نے اس کے حصول کی جدوجہد میں قربان اور شہید ہونے والی ہستیوں سے وفا نہ نبھائی۔لاکھوں جلا وطن ہونیوالے مسلم مہاجروں کی قربانیوں کی لاج نہ رکھی ۔ عصر رواں کی جنگیں پاکستان کے ازلی دشمن کے ساتھ سرحدوں پر نہیں بلکہ ثقافتی اور تہذیبی جنگیں ہیں جو سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے دشمن لڑ رہا ہے۔کہیں ٹی ٹی پی کے ذریعے مذہبی گروہ تخریب کا ری میں ملوث ہیں تو کہیں سیاسی جماعتوں میں بہروپیے اور کہیں میڈیا میں موجود ان کے ایجنٹس اس وطن کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے اور اس کے باسیوں کے نظریات و عقای60د کو تباہ کرنے میں مصروف ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کے حصول کے مقاصد کو ذہن میں رکھتے ہوے60 ہر شعبہ زندگی سے وابسطہ افراد ملک و ملت کی ترقی کے جذبے سے اپنا کردار ادا کریں۔حکومتی و سیاسی اراکین اور صاحب امر افراد دشمن کے ہر ایجنٹ اورفنڈڈ تنظیموں کا خاتمہ کریں۔میڈیا کی کڑی نگرانی کی جاے60 اور اسلامی نظریاتی کونسل کو فعال کرنے کے ساتھ آزادانہ کام کرنے کا موقع فراہم کیاجاے60 اور جس غزوہ ہند کی بشارتیں ہمارے بزرگوں نے سنائی تھیں اس کیلئے افواج پاکستان اور ملٹری ادارے ہمہ دم تیا ر رہیں۔{jcomments on}
153