اعظم احساس/پچیس سال قبل کی بات ہے میں ملازمت کی وجہ سے آزاد کشمیر مظفر آباد سے تقریبا ساٹھ کلومیٹر دور ریشیاں میں تھا ایک دن مظفر آباد آنا ہوا بس جب راستے پڑنے والے مقام گڑھی دوپٹہ سے گزری تو دیکھا آگے سڑک پر چند لوگ اکٹھے ہوئے ہیں لہذا ڈرائیور نے بس روک دی چند مسافر نیچے اترے اور لوگوں سے پوچھنے لگے کہ کیا ماجرا ہے یہ عرض کرتا چلوں کہ اس وقت سڑک دریائے جہلم کے ایک کنارے پر تھی اب بھی ہے ریشیاں سے جب مظفر آباد کی طرف آئیں تو نیلی پل کے نیچے دریائے جہلم گزر رہا ہے اور یہاں دریا کے پاٹ تنگ ہونے کی وجہ سے پانی کا بہاو خاصا تیز ہے البتہ یہ دریا بلندی سے پستی کی طرف بہتا ہوا جب گڑھی دوپٹہ سے گزرتا ہے تو یہاں اس کے پاٹ نسبتا زمین کے ہموار ہونے کی وجہ سے چوڑا ہوتا ہے اور دریا کی روانی میں وہ تیزی نہیں رہتی تاہم دریا کے دوسرے کنارے بھی کچھ لوگ اکٹھے ہوئے تھے جو لوگ ہماری بس کی راہ میں کھڑے تھے ان سے پوچھنے پر پتہ چلا کہ دوسرے کنارے پر ایک لاش پڑی ہے جو غالبا اس دریا میں بہتی بہتی انڈیا کی جانب سے آئی اور اس پر (گڑھی دوپٹہ)میں دریا کا پاٹ چوڑا ہونے کی وجہ سے دریا کے پانی نے اسے کنارے لگا دیا مزید یہ کہ وہ لاش کسی خاتون کی تھی جو بالکل ننگی تھی اور اس پرکیلیس گاڑھ کر لکھا گیا تھا ”جاو تمہیں پاکستان جانے کا بڑا شوق تھا“بات سمجھ میں ہم لوگوں کے آگئی کہ یہ غالبا کشمیر سے لاش آئی ہے اور کسی سفاک اور ظالم ہندو غیر کشمیری نے نہ جانے اس بے چاری پر کیا کیا ظلم کرنے کے بعد ایسے دریا برد کر دیا ہو گا ۔تاہم گڑھی دوپٹہ کے مقامی لوگوں نے اسے کفن پہنانے کے بعد دفن کر دیا ۔یقین کیجئے آج اس واقعے کو پیش آئے 24سال گزر گئے ہیں لیکن کبھی یاد آجائے تو آنسو نکل آتے ہیں اور دل خون کے آنسو روتا ہے نہ جانے کشمیری مسلمانوں کے ساتھ انڈین نے کیسا کیسا سفاکانہ ظلم روا رکھا ہوا تھا اور رکھا ہوا ہے ۔ 5اگست 2019کوہندوستان کے پارلیمنٹ میں آرٹیکل 370میں ترمیم کر کے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی جس کے نتیجے میں جموں و کشمیر کو اب ریاست کا درجہ حاصل نہیں کر رہا جہاں کشمیر کے خصوصی قانون سٹیٹ سبجیکٹ رول ختم کیا گیا وہیں اس کو تقسیم کر کے مرکز(دہلی)کے زیر انتظام دو علاقے بنائے گئے ہیں جن میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا لداخ ہے اور ان دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لفٹیننٹ گورنر چلائیں گے جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی ہو گی تاہم لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہو گی جموں و کشمیر کا اپنا آئین اب ختم ہو جائے گا آئین کے آرٹیکل 370کی صرف ایک شق کو برقرار رکھا گیا ہے جس کے مطابق صدر ہند تبدیلی اور حکم جاری کرنے کے مجاز ہوں گے.اس کے علاوہ اب جموں و کشمیر کے داخلی امور وفاقی وزیر داخلہ کے تحت آجائیں گے جولیفٹینٹ جنرل کے ذریعے انھیں چلائے گا انڈیا کے تمام مزکزی قوانین جو پہلے ریاستی اسمبلی کی منظور کے محتاج تھے اب علاقے میں خود بخود نافذ ہو جائیںگے جب کہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیری قوم ایک خصوصی حیثیت کی حامل تھی جہاں ابھی استصواب رائے ہونا باقی تھا لہذا پاکستان نے اقوام متحدہ سے رابطہ کیا اور مورخہ 16اگست 2019کو اقوام متحدہ کی اسمبلی میں بند کمرہ اجلاس ہوا یقینا اس میں پاکستان کی سفارتی کوششیں رہیں اور انڈیا کی مخالفت کے باوجود پاکستان جنرل اسمبلی اقوام متحدہ میں کشمیر کے مسلے کو لے گیا کہ انڈیا نے ہٹ دھرمی اور سفاک کی انتہا کر رکھی تھی یقینا یہ پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے اگر چہ یو این او کی کشمیر بارے قرار دادوں پر عملدر آمد پچاس سال سے زائد عرصہ ہوا منتظر ہے اور انڈیا شروع دن سے کشمیریوں پر طرح طرح کے ظلم روا رکھے ہوئے ہے اب بھی
وادی میں پچھلے دو ہفتوں سے کرفیو نافذ ہے لہذا پاکستان کو مجبورا یو این او کے سامنے ایک دفعہ پھر کشمیر ایشوکو لے جانا پڑا ایسے میں مندرجہ بالا حقائق و واقعات کو جب دیکھتے ہوںتو اختر عثمان کے یہ اشعار یاد آجاتے ہیں جو انھوں نے غالبا بیس برس پہلے کہے تھے مگر اشعار کی خوبصورتی اور اختر عثمان کا ویژن دیکھے یہ اب بھی کشمیر کے ایشو کی عکاسی کرتے ہیں ۔ضبط کا مرحلہ اظہار تک آپہنچا ہے کوئی روتا ہوا بازار تک آپہنچا ہے حلقہ در حلقہ بڑھی جاتی تھی کوتھا قدمی سلسلہ قافلہ سالار تک آپہنچا ہےآخر میں ان دوستوں کا شکر گزار ہوں جنھوں نے میرا سابقہ کالم پڑھ کر مجھے فون کیا اور میری صحت کے بارے میں پوچھا ان کا بہت
شکریہ محمد اعظم احساس03015095396
143