سورج اپنی طنابین کھینچ رہاتھا اور اس وقت وہ مغرب میں آدھاپیوست تھا،یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ آسمان کے کناروں پر ٹھوڑی لگائے مسکین اور اس کے گھروالوں کو بِٹ بِٹ تک رہاہے ۔اس کے چہرے کی زردی اور ڈھلتے سورج کی زردی گھل مل جانے سے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ سورج کی زردی اندھیرے میں پہلے تبدیل ہوگی یا
مسکین کی زردی ۔اس کا نام تو مسکین تھا لیکن سارے لوگ اسے کینوں کہتے تھے۔والد اور ماں کی وفات کے بعد اس کا نکھرا نکھرا رنگ آہستہ آہستہ زردی مائل ہوگیاتھا اور یوں محسوس ہوتاتھا کہ اسے یرقان ہے ۔جیب میں رقم نہ ہونے کی وجہ سے اس نے کئی ڈیروں اور مزاروں پر جا کر دم درود کرائے لیکن زردی مائل رنگت کی بڑھوتری بدستور جاری رہی۔
جب تک اس کا والد زندہ رہا ،مسکین چودھری مسکین کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن والد کی وفات کے فوری بعد وہ کینوں بن گیا تھا۔ جب تک اس کا باپ زندہ رہا اس کے گھر کا چولہاکسی نہ کسی طورجلتارہااور چھوٹی چھوٹی خوشیاں اس گھر کے آنگن میں بسیراکرتی رہیں ۔لیکن یکے بعددیگرے والداوروالدہ کی وفات کے بعد حالات نے ایسا پلٹا کھایا کہ سب کچھ بہہ گیا۔والد نے چھوٹی عمر میں ہی بڑے چاؤ سے اپنے بیٹے کی شادی کردی تھی ۔اس کی جوان بیوی لاڈواس عمر میں ہی بوڑھی نظر آنے لگی تھی اور اس کا ننھا سا بچہ علی دن بدن ہڈیوں کا ڈھانچا بنتا جارہاتھا۔ سوائے دوکمروں کے بوسیدہ مکان کے اس کے پاس کچھ بھی نہ تھا۔
جب تک کینوں کی صحت اچھی رہی وہ دن بھر کی مزدوری سے گھر چلاتارہا لیکن جب اس کی صحت تیزی سے گرنا شروع ہوئی تو وہ کام کاج کے قابل نہ رہا۔بیسیوں مرتبہ اس نے کوئی چھوٹی موٹی نوکری کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار منہ کی کھائی اور نامراد گھر لوٹا۔علی کی عمر اب سکول جانے کی ہوچکی تھی ،اس لئے اسے گورنمنٹ سکول میں داخل کرادیاگیا۔دیگر بچوں کے کپڑے دیکھ کر علی نے بھی ضد شروع کردی کہ مجھے بھی اچھے کپڑے لے کر دیئے جائیں ۔لاڈو نے گو منہ سے تو نہ کہا لیکن اشاروں کنایوں سے کینوں نے محسوس کرلیا تھا کہ لاڈو ،علی کے کپڑے نہ لانے پر ناراض ہے ۔
کینوں نے بڑی کوشش کی کہ چندروپے ادھار مل جائیں تو علی کی خواہش کوپورا کردیا جائے لیکن پہلے لیا گیا ادھار واپس نہ کیا جائے تو نیا ادھار کون دیتاہے ؟کینوں نے اپنے بچے کی پیدائش پر جن صاحبان ثروت سے ادھارلیا تھاانھیں ایک کوڑی بھی واپس نہ کی تھی ۔ مزدوری ختم ہوچکی تھی،صحت خراب رہنے لگی تھی اور ستم ظریفی یہ کہ علی کوبھی سوکھنے کی بیماری نے جکڑ لیا تھا۔نئے کپڑوں کی ضد اس قدر طول پکڑ گئی کہ علی نے سکول جانا چھوڑ دیا۔
لاڈو اس صورت حال پر کڑھتے کڑھتے ٹی بی کی مریضہ بن گئی ۔صبح جب سورج اس گھرپر اپنی روشنی بکھیرتا تو یوں محسوس ہوتا کہ یہ کینوں کا گھر نہیں بلکہ ایک قبرستان ہے جس میں تین لاشیں پڑیں ہیں لیکن لاشوں میں ابھی تھوڑی بہت حرکت باقی تھی۔
پڑوسی نے ایک دن کینوں کو بتایا کہ قریب شہر میں ایک صحافی ہے اگر اس سے رابطہ کیاجائے اور وہ تیرے حالات میڈیا پر دینے کی۔
حامی بھر لے توشاید حکومتی سطح پر یا کوئی مخیر ترس کھا کر تیرا بوجھ اٹھانے پر آمادہ ہوجائے ۔میڈیا میں بڑی طاقت ہے اور پھر سب سے بڑھ کرگ یہ بات باعث اطمینان ہے کہ میڈیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو انسانیت سے محبت کرتے ہیں اور مجبور اور مقہور لوگوں کی آواز بن جاتے ہیں۔
کینوں کی داستان دردناک بھی تھی اور لائق توجہ بھی ۔اس لئے صحافی نے خدمت خلق باور کرتے ہوئے اس کے حالات کو من وعن تحریر کیا اور اپنے ادارے کو ارسال کردیا۔دوتین دنوں تک اس کے ادارے نے کینوں کی داستان کو شائع نہ کیا تو صحافی کے دریافت کرنے پر ادارے کے نیک دل مالک نے اسے بتایا کہ ہماراادارہ کوئی خیراتی ادارہ نہیں ہے اس لئے ہم ایسی خبریں اور رپورٹیں شائع کرکے اپنی اور ادارے کی ساکھ متاثر نہیں کرسکتے ۔ہاں اگر پارٹی اشتہار شائع کروانا چاہتی ہے تو ادارہ حاضرہے ۔کینوں کو جب بتایا گیا کہ اصولوں کے ہاتھوں مجبور و مقہور ادارے کے مالک نے اس کی کہانی چھاپنے سے انکار کردیا ہے تو اس نے بڑے درد بھرے انداز میں خود کلامی کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ہرکوئی مانگنے والا ہے ،خیرات سے مفر ممکن نہیں۔میڈیا اپنے نمائندوں سے خبروں کی خیرات مانگتاہے۔اشتہارات کی مدمیں دامن پھیلے نظر آتے ہیں۔کچھ تعلقات کی بھیک پر زندہ دکھائی دیتے ہیں۔سیاست دان عوامی خدمت کے نام پر بڑی بڑی رقمیں ہڑپ کرجاتے ہیں۔اولاد والدین سے پیار کی خیرات لیتی نظر آتی ہے تو والدین خدمت کی خیرات پر خوش دکھائی دیتے ہیں۔تاجر گاہک سے منافع کی بھیک مانگتاہے تو گاہک تاجر سے کچھ رقم کم کرنے کی دہائی دیتانظر آتاہے ،یہاں سب منگتے ہیں ۔ سب ۔۔۔جو سب سے بچ جائے وہ اپنے اللہ سے بھیک اور خیرات مانگتا نظر آتاہے ۔۔۔خیرات کھانے والے میری خبر نہیں چھاپ رہے ۔کس قدر دکھ کی بات ہے۔ کس ۔۔۔ قدر۔۔۔ دکھ۔۔۔ ایک دن انھیں میری خبر بڑی سرخی کے طورپر لگانا ہوگی ۔دیکھ لینا تم سب دیکھ لینا۔۔
دن تیزی سے گزر رہے تھے اور تینوں لاشوں میں حرکت مسلسل کم ہورہی تھی ۔رات بھر کینوں جاگتااور یہی سوچتارہا کہ اس بھری دنیا میں ایک شخص بھی ایسا نہیں جو مجھے رونے کے لئے اپنا کندھا پیش کرسکے ،میرے علی کو کپڑوں کا ایک جوڑا لا کردے سکے،لاڈو کی بیماری کے لئے چند سکے خیرات کرسکے،مجھے چھوٹی موٹی نوکری دے سکے۔آزاد میڈیا بھی جواب دے گیا۔اڑوس پڑوس والے بھی کنی کترا کر گزرجاتے ہیں۔صبح ہونے والی تھی ۔ابھی موذن نے اللہ کی کبریائی کا اعلان نہیں کیا تھا اور ابھی نمازی اپنے بستروں سے پہلو کو لگائے ہوئے تھے کہ علی نے رونا شروع کردیا۔لاڈو اسے دلاسا دے رہی تھی لیکن بچے کو کسی پہلو آرام نہ تھا۔گھر میں سوائے پانی کے کچھ بھی نہ تھا جو بچے کے منہ میں ڈالا جائے ۔موذن کی آواز بلند ہوئی۔ نمازیوں نے وضو کیا اور مسجد کی راہ لی۔باجماعت نماز کے بعد اورادووظائف پڑھے جارہے تھے۔ قاری قرآن کی تلاوت کررہے تھے اور پرندے درختوں پر اللہ کی حمدوثناء میں محو تھے۔کینوں اضطرابی کیفیت میں اٹھا اور گھر سے باہر نکل گیا۔لاڈو نے کئی آوازیں دیں لیکن آگے سے کوئی جواب نہ آیا۔
دن بھر وہ گھر واپس نہ آیا ۔رات کافی گزر چکی تھی ۔علی کی حالت بدستورخراب تھی ۔لاڈو سوکھ کر تیلا بن چکی تھی ۔اس کے ہونٹوں(باقی صفحہ 3 بقیہ 48)
پر جمی ہوئی پیپڑی مذید گہری ہوگئی تھی۔گھر میں اداسی چہار جانب بال کھولے نظر آرہی تھی ۔علی کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔اور لاڈو کو ایک کٹھکا سا لگاہوا تھا ۔ایک انجانا خوف اس کے جسم میں سرایت کرچکاتھا۔نہ جانے کیوں اسے نیند نہیں آرہی تھی۔
دروازہ کھلا تو کینوں خوش خوش گھر داخل ہوا۔علی کی دوائی اور نئے کپڑوں کا بندوبست ہوگیاہے ،تیری دوائی کے بھی پیسے مل گئے ہیں اب تو بہت جلد ٹھیک ہوجائے گی،ہمارے دکھ کے دن اب کٹ چکے ہیں ۔کینوں نے ایک ہی سانس میں اتنی ساری خوش خبریاں لاڈو کو سنا ئیں تووہ ایک دم اٹھ بیٹھی۔کیا کوئی نوکری مل گئی ہے ۔لاڈونے علی کے سرپر ہاتھ پھیرتے ہوئے سوال کیا۔
پکی نوکری ۔کینوں نے تمتاتی ہوئی نظروں سے لاڈو کی جانب دیکھتے ہوئے جواب دیا۔پھر وہ علی کے قریب جا کر اسے پیار کرنے لگا،اسے اپنے سینے پر بٹھا لیا۔کمزوری کی وجہ سے علی کی گردن بار بارایک جانب جھک جاتی تھی۔اس نے ایک لمبی سانس کھینچ کر علی کے ماتھے پر پیار کیا اور کافی دیر تک ہونٹ ماتھے سے ٹکائے رکھے۔ اس دوران اس کی آنکھوں سے چند آنسو بھی بہہ نکلے لیکن کمرے میں کم روشنی کی وجہ سے لاڈو ان آنسوؤں کو نہ دیکھ سکی۔کچھ دیرکے بعد وہ سوگئے ۔
دوسرے دن کینوں کے کمرے کا بوسیدہ دروازہ دن بھر بند رہا۔شام ہوچکی تھی ،سورج اپنی طنابیں کھینچ چکاتھا۔یوں محسوس ہوتاتھا کہ وہ دور افق پر ٹھوڑی جمائے کینوں کے گھر میں جھانکنے کی کوشش کررہاہے ۔گاؤں بھر میں ایک شور مچ گیا۔ تین لاشیں گھر میں پڑی تھیں اور محلے کے معززین یہ کہہ رہے تھے کہ کینوں نے اپنے بیٹے اور بیوی کو قتل کرکے خود کشی کرلی ہے اور خودکشی اسلام میں حرام ہوتی ہے ۔قیامت کے دن دوزخ کی آگ کینوں کا مقدر بنے گی۔کینوں کے چہرے کی زردی اور ڈھلتے سورج کی زردی گھل مل جانے سے یہ فیصلہ کرنا اب مشکل نہیں تھا کہ سورج کی زردی اندھیرے میں پہلے تبدیل ہوگی یا مسکین کی زردی۔
خیراتی خبریں نہ لگانے والے ادارے نے سرخی جمائی ۔معاشرے کی بے حسی،بے روزگارباپ نے اپنے معصوم بیٹے اور بیوی کو قتل کرکے خودکشی کرلی ۔
میرے ذہن میں کینوں کے یہ الفاظ گردش کرنے لگے کہ ایک دن انھیں میری خبر بڑی سرخی کے طورپر لگانا ہوگی ۔دیکھ لینا تم سب دیکھ لینا۔۔