بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے1944ء میں ایک خطاب کے دوران کہا کہ کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس قوم کی خواتین ملکی ترقی کے لیے مرد کے شانہ بشانہ نہ کھڑی ہوں۔تقسیم ہندو پاک کے وقت خواتین کی شرح مردوں کے مقابلے میں ذیادہ تھی جنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح {jcomments on}کی سربراہی میں خواتین کے ساتھ ہونے والی سماجی اور معاشی نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی . انھوں نے پاکستان موومنٹ میں بھی مردوں کے ساتھ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اسکو اپنی کاوشوں سے کامیاب بنایا۔آج اپنے اردگردنظر ڈورائی جائے تو خواتین ہر شعبے میں نمایاں طور پر سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے خواتین نے مختلف شعبوں میں بڑی کامیابی سے ترقی کی ہے۔اسکی بہترین مثالیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ارفعہ کریم کو کون نہیں جانتا جو واحد پاکستانی طالبہ ہے جس نے کم عمری میں مائیکرو سوفٹ پروفیشنل بن کر دنیا کو حیران کر دیا۔اس کو کئی بڑے اعزازات اور تمغات سے نوازا گیا۔اس نے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پرنمایاں کیا مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ وہ ہم سب کو سولہ سال کی عمر میں دنیا سے چلی گئی۔ ایسی ہی ایک مثال ہماری جانباز پائلٹ مریم مختارکی ہے جوکہ ایشیاء کی پہلی خاتون فائٹر پائلٹ تھی جس نے زندگی میں آنے والی تکلیف دہ مشکلات کے باوجود بھی اس بات کو ثابت کر دیا کہ عورت کے لیے کوئی منزل بھی طے کرنا مشکل نہیں اگر اس میں کام کرنے کا جذبہ اور لگن ہو۔ایسی ہی پاکستان کا ایک اور چمکتا ستارہ منیبہ مزاری ہے جس نے ایک حادثہ میں اپاہج ہونے پر اپنی زندگی کو اندھیرے میں دھکیلنے کے بجائے اپنی کمزوری کو اپنی طاقت بنایا اور باقی خواتین کے لیے مشعل راہ ثابت ہوئی۔ایسی اور بھی کئی خواتین ہیں جنھوں نے ملکی ترقی اور برتری کے لیے بے شمار قربانیا ں اور جدوجہد کی۔عورت ہر روپ اور ہر رشتہ میں عزت و قار کی علامت،وفاداری اور ایثار کا پیکر سمجھی جاتی ہے۔انہی خواتین کی لازوال قربانیاں اورملکی ترقی میں کاوشوں کو سراہنے اور خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ملک بھر میں 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتاہے۔اس دن خاص طور پر مختلف شعبوں میں نمایاں کردار کی حامل خواتین کی حوصلہ افزائی اور کامیابیوں کا جشن منایا جاتا ہے۔خواتین کے عالمی دن پرصنفی مساوا ت و حقوق کو خاص طور پرمدنظر رکھا جاتا ہے اور اسی سے متعلق 2017 کا سلوگن #BeBold For Change بھی متعارف کروایا گیا ہے۔پاکستان میں بھی باقی ترقی پذیر ممالک کی طرح خواتین کو ان کے حقوق پوری طرح سے حاصل نہیں ہیں جن کی وہ حقدار ہیں۔انھیں تشدد اور ذیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور حقیروں کی طرح کاسلوک کیا جاتا ہے جسکی وجہ سے وہ عدم اعتمادی کا شکار ہوجاتی ہیں اور ان کے حق کی آواز دب کار رہ جاتی ہے۔ایک سروے کے مطابق پاکستان کی 49.2 فیصد آبادی خواتین کی ہے جن میں سے صرف 28 فیصد خواتین بر سرروزگار ہیں۔خواتین نہ صرف تعلیمی میدان میں مرد حضرات سے بازی لے جاتی ہیں بلکہ کیریر بنانے کے لیے بھی انتہائی محنت اور لگن سے کام لیتی ہیں مگر اس کے باوجود مرد بہت بڑے فرق کے ساتھ اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہوتے ہیں۔اسی فرق کوکم کرنے اور گزشتہ کئی عرصے سے خواتین کے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں اور ظلم کے خلاف حکومت پنجاب نے بہت سے اہم اقدامات کیے اور حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے کئی بل پاس کیے۔پنجاب اسمبلی نے خواتین کے تحفظ کے لیے”Punjab Protection Of Women Against Voilence Act-2016″بل پاس کیا جو کہ صوبے میں نافذ کیا گیا۔اس بل کے تحت وہ خواتین جو جذباتی،نفسیاتی تشدد اورسائبر کرائم کا شکار ہیں،ان کو اس سے بچاوٗ کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کیا جائے گا جس سے وہ اپنے حق کے لیے لڑ سکیں گی۔اس سلسلے میں پنجاب حکومت نے 8 مارچ 2012 کو ویمن ایمپاورمنٹ پیکج کا اعلان کیا۔اس پیکج کے تحت وراثتی قانون میں تبدیلی کرکے ان کے حق جائیداد کو تحفظ دیا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ تقسیم جائیداد کے معاملات میں تاخیر کے خاتمے کے لیے پنجاب پارٹیشن آف ایمویبل پراپڑتی ایکٹ 2012 پنجاب اسمبلی نے منظور کر دیاجس کی رو تقسیم جائیداد کی سکیم تقریباً 9000 گھرانوں،کچی آبادی کے مکینوں کے 11000گھرانوں اور سرکاری زمین پر دیہی آبادیوں کے گھرانوں کو مالکانہ حقوق دینے کا مراسلہ جاری کر دیا ہے جسکی رو سے ان جائیدادوں میں میاں اور بیوی برابری کی بنیاد پر پچاس فیصد حصے کے مالک ہوں گے۔حکومت پنجاب نے کام کرنے کی جگہ پر خواتین کے تحفظ کے لیے ہراسانی کے خلاف ضابطہ قانون 2012 پنجاب اسمبلی میں منظور کروا دیا گیا تاکہ خواتین کو کام کے لیے صحت مند اور پرسکون ماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔اس ضمن میں پنجاب حکومت نے ملکی تاریخ میں پہلی بار صوبائی سطح پر خاتون محتسب کا تقرر عمل میں لایا گیا جہاں موصول ہونے والی شکایات پر کاروائی کی جاتی ہے۔اس کے علاوہ حکومت نے پنجاب بھر میں ویمن کرائسس سنٹڑقائم کئے گئے ہیں جو خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ فری لیگل ایڈ بھی مہیا کرتا ہے۔عورتں کے استحصال کی ایک بڑی وجہ خواتین کی اپنے حقوق سے لاعلمی اور تعلیم سے دوری ہے۔وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے خواتین کے لیے حصول علم پر زور دیتے ہوئی کہا ہے کہ یہ ہمارے ملک کوآگے چل کر ایک روشن مستقبل دیتے ہوئے پاکستان کو ترقی کی بلندیوں پر لے جائیں گی۔اس سلسلے میں انہوں نے پنجاب ایجوکیشن سیکٹر میں سے 60 فیصد حصہ بچیوں کے تعلیمی اداروں کے لیے مختص کیا ہے جس سے ان کو ایک خوشگوار ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کو یقینی بنایا جائیگا اور اس حوالے سے ہائر ایجوکیشن کے لیے گورنمنٹ کالجزبنائے اور اس میں خواتین کے لیے ہاسٹل کی سہولیات بھی دی جائیں گی۔جہاں حکومت پنجاب نے خواتین کے تحفظ اور ان کو بااختیار بنانے کے لیے ایک ذمہ دار حکومت ہونے کاثبوت دیاہے وہیں اب یہ خواتین پر منحصر ہے کہ وہ اپنے حقوق کو پہچانیں اور آج کے معاشرے میں سر اٹھا کر جینا سیکھیں۔
125