تحریر/میاں بابر صغیر
یہ حلال اور حرام کے بارے میں سیمنار تھاجو ساہیوال چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے زیر اہتمام منعقد کیا گیا تھا شروع شروع میں تومیں بہت حیران ہوا کہ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں حلال اور حرام بارے پروگرام کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی پروگرام کا آغاز ہو اتو حلال اور حرام کے بارے {jcomments on} میں بات شروع ہوگئی جس کا آغاز حلال اور حرام میں تمیز اس کی لفظی تعریف،معنی اور اسلام میں کونسی چیز حلال یا حرام پر آگاہی کے ذریعے کیا گیا مجھے یوں محسوس ہوا جیسے سیمنار کرنے والی ٹیم کسی غیر مسلم ملک کے باسیوں کوحلال اور حرام کے بارے میں آگاہی فراہم کر رہی ہے میرے لیے یہ ان کی جانب سے وقت کا ضیاع محسوس ہورہا تھا لیکن جو ں جوں پروگرام آگے بڑھتا گیا مجھ سمیت تمام حاضرین کی آنکھیں کھلنا شروع ہوگئیں اور آخرمیں نتیجہ یہ نکلا کہ اگرچہ ہم مسلم ملک کے باسی ہیں مگر حرام اشیاء ہماری روز مرہ زندگی میں شامل ہو چکی ہیں ہم صرف گوشت کو حلال یا حرام سمجھتے ہیں جبکہ یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ شیمپو جس سے ہم بال دھوتے ہیں وہ صابن جس سے ہم اپنے آپ کو پاک صاف کرتے ہیں وہ کریم جس کو ہم اپنے چہر ے کی حفاظت کیلئے استعمال کرتے ہیں وہ میک اپ جن کو ہم اپنی خوبصورتی کے لیے استعمال کرتے ہیں وہ بھی حرام اشیاء سے بنی ہوئی ہیں جن میں خنزیر کا استعمال عام ہو رہا ہے صرف خوراک ہی نہیں بلکہ ہماری ہر وہ چیز جس کا تعلق بنیادی ضروریات زندگی سے ہے اس کے بارے میں ہم مکمل اعتماد سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ آیا وہ حلال ہیں یا حرام خوراک کے بارے میں بھی ہماری تشویش کم نہیں ہونی چاہیے کہ جب ہم اپنی کھانے والی چیزوں میں ہی ابھی تک حلال و حرام کی تمیز نہیں کر سکے تو ہم دوسری ضروریات زندگی میں کیسے حلال و حرام کی پہچان کر سکیں گے زیادہ سے زیادہ ہمارے ہاں یہ ہوا ہے کہ ہم اپنی پراڈکٹس پر خود ہی حلال لکھ دیتے ہیں یا پھربغیر تصدیق حلال کا لیبل لگا دیتے ہیں جس کی وجہ سے پوری دنیا میں ہماری بد نامی ہو رہی ہے اورہم خوراک کے ساتھ ساتھ اپنے مذہب کے ساتھ بھی غداری اور دھوکہ دہی کے مرتکب ہو رہے ہیں ہماری عام حلال اشیاء حلال تو ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ مضر صحت نہیں ہیں آپ ہمارے ہاں اڈوں پر بیٹھے ہوئے گوشت بیچنے والے قصابوں کی مثال ہی لے لیں اس کا پھٹہ گندگی سے بھرا ہوتا ہے وہاں اس کے جانے کے بعد بلکہ بعض اوقات اس کی موجودگی میں بھی کتوں اور بلیوں نے منہ مارے ہوتے ہیں ہمہ اقسام کے حشرات الارض وہاں موجود ہوتے ہیں مکھیاں تو سرعام سب کی آنکھوں کے سامنے دند نارہی ہوتی ہیں اور ان میں سے کئی اس قصاب کے ٹوکے کی زدمیں بھی آجاتی ہیں جو بڑی تیزی سے گوشت کی تکہ بوٹی کر رہا ہوتا ہے وہ جس پانی سے بار بار اپنا ٹوکہ یا چھری دھو رہا ہوتا ہے وہ بھی انتہائی گندہ اور آلو دہ ہوتا ہے جس میں سے بعد میں غذائیت حاصل کرنے کے لیے کتے اور بلیاں بھی پانی پیتے ہیں پھر وہ وہی پانی آگے سڑک پر پھینک دیتا ہے جو آلودگی کا باعث بن کر چند ہی لمحوں میں سانسوں کے ذریعے ہمارے پھیپھڑوں میں دھول کے ساتھ ساتھ شامل ہونا شروع ہوجاتا ہے اگر اس قصاب کو گوشت بناتے ہوئے واش روم کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ قریب ہی دیوار کے ساتھ اپنی حاجت مکمل کرتا ہے اور بغیر ہاتھ دھوئے دوبارہ آپ کے لیے گوشت کی تیاری میں مصروف ہو جاتا ہے اس کے ہاتھ اس کی دوکان یا ٹھیلے پر موجود ہر چیز کو چھور ہے ہوتے ہیں اب یہ گوشت حلال ہو تو گیا مگر پاک نہیں ہوا اس کے بعد وہ قصاب اسے جس شاپر بیگ میں ڈالتا ہے وہ بھی گندے پلاسٹک سے بنا ہوتا ہے اس سارے عمل میں وہ جراثیم بھی بار بار ساتھ شامل ہوتے جاتے ہیں جو دھونے سے بھی نہیں اترتے بعض اوقات یہ قصاب حضرات تکبیر پڑھتے ہی نہیں ہیں کیونکہ بہت سوں کا کہناہے کہ وہ صبح ایک ہی مرتبہ تکبیر پڑھ لیتے ہیں جو سارا دن ان کے کام آتی ہے آپ خود ہی یاد کریں کہ جب بھی آپ گوشت لینے گئے ہوں کتنی مرتبہ آپ نے قصاب کو تکبر پڑھتے سنا امریکہ و یورپ میں گندگی صاف کرنے کے لیے صابن کا استعمال کیا جاتا ہے مگر صابن کے استعمال کو ہی وہ کافی نہیں سمجھتے بلکہ بعد میں سینی ٹائزر کا استعمال کرتے ہیں جو ایک جل کی طرح ہوتا ہے ان کا کہنا ہے کہ صابن صرف گندگی اتارتا ہے ہاتھوں کو جراثیم سے پاک نہیں کرتا جس کے لیے وہ سینی ٹائزر استعمال کرتے ہیں تاکہ جراثیم ان کی صحت پر اثر انداز نہ ہو سکیں اس طرح ہمارے لیے اشیاء کا صرف حلال ہونا ہی کافی نہیں ساتھ ہی ساتھ ان کا مضرصحت جراثیم اور گندگی سے پاک ہونا بھی ضروری ہے اسلامی ملک میں رہتے ہوئے بھی اگر حلال چیزوں کی پاکیزگی اور ناپاکی کا خیال نہیں کریں گے تو ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اسلامی اصولوں کے مطابق خوراک استعمال کر رہے ہیں کیا ہمارے ذہین میں یہ خیال نہیں آتا کہ جب ہمارے سامنے یہ قصاب ہمیں بیوقوف بنا جاتے ہیں ہمیں گندگی ملا گوشت فراہم کرتے ہیں وہ گوشت جسے ہم اپنی صحت اپنے بچوں کی صحت یا بزرگوں کی صحت کے لیے خرید رہے ہوتے ہیں وہ دراصل مضر صحت ہوتا ہے اگر یہاں سب کچھ ہماری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے تو وہ بڑ ی بڑی فیکٹریاں یا ذبیحہ خانے جہاں روزانہ سینکڑوں من گوشت تیار کیا جاتا ہے وہاں بھلا کیا ہوتا ہوگا ہمارے ہاں ایسا تو کوئی ادارہ ابھی تک ہے نہیں جو حلال ہونے کی سرٹیفکیشن یعنی ضمانت دے سکے ان کی چیکنگ کر سکے وہاں صحت کے اصولوں کی پاسداری کو یقینی بنا سکے ان سب کے باوجود بھی اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہمارے ملک میں اتنی بیماریاں کہاں سے آگئی ہیں تو ہم سے بڑا بے و قوف کوئی نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں راہ حق پر چلنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔ آمین
90