304

حقیقی ریاست مدینہ

عاطف کیانی/ہمارے نبیؐ نے آج سے چودہ سو سال پہلے حقیقی ریاست مدینہ قائم کی۔آپؐ کے وصال کے بعد بھی صحابہ کرام نے اس سلسلے کو جاری و ساری رکھا جس کے نتیجے میں اسلام پوری دنیا تک پھیل گیا ہمارے ہاں بھی ریاست مدینہ کا تصور پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن مدینہ کی طرز کی اسلامی ریاست کے قیام کے لیے انتھک محنت صبر اور استقامت کی ضرورت ہوتی ہے۔اور قرآن اور سنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم ایسا کر سکتے ہیں مدینہ کی ریاست میں ایثار محبت خلوص کا درس ملتا ہے لیکن آج کل کوئی دوسرے کی بات برداشت کرنے اور سننے کو تیار نہیں لیکن مدینہ کی ریاست میں ہمیں مواخات کا درس ملتا ہے ہمارے معاشرے میں عدل و انصاف ملنا مشکل ہے لیکن مدینہ کی ریاست میں انصاف کا بول بالا تھا۔ملک پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا دعویٰ تو کیا جاتا ہے مگر دور دور تک اس طرح کے اعمال نظر نہیں آتے جو ریاست کے اصول ضابطے ہیں۔حقیقی ریاست مدینہ میں بادشاہ و گدا امیر و غریب حاکم و محکوم سب برابر ہوتے لیکن یہاں نظام الٹ ہے حاکم وقت یہاں اقتدار کے مزے لوٹتے ہیں اعلیٰ اور ادنیٰ کی تفریق ہے اعلی عہدوں پر بیٹھے لوگ جو عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں انہیں عوام سے کوئی غرض ہوتی ہے نہ ہی ملکی اور قومی مفادات سے انہیں کوئی دلچسپی ہے ہمارے معاشرے میں امیر امیر تر اور غریب پہلے سے زیادہ غریب تر ہو رہے ہیں۔یہاں پر دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا عمل جاری و ساری ہے مفاد پرست غریبوں کا خون نچوڑنے کے درپے ہے۔یہاں پر سود رشوت اور حرام کی کمائی کو دولت مند ہونے کا اصول سمجھا جاتا ہے۔اسلامی تعلیمات پڑھنے سمجھنے کے باوجود بہت سے لوگ اپنے ذاتی مفادات کے لیے کچھ بھی کر سکتے ہیں جب تک معاشرے میں عدل و انصاف حلال حرام کی تمیز نہیں کی جائے گی تب تک دعوے صرف دعووں تک ہی محدود رہیں گے اس پر عمل درآمد ہونا مشکل ہے آنحضرتؐنے اپنے آخری خطبے میں پوری انسانیت کے لیے ایک منشور پیش کر دیا تھا اس کو اپنانے کی ضرورت ہے حقیقی ریاست مدینہ بنانے کے لیے انہیں اصولوں کو اپنانا ہو گا معاشرے سے لوٹ کھسوٹ چوری رشوت نا جائز منافع خوری کو ختم کر کے ایک حقیقی فلاحی ریاست بنائی جا سکتی ہے موجودہ حکومت نے بھی پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کا اعلان کیا ہوا ہے لیکن اس نام نہاد جمہوریت میں ایسا کرنا ممکن نظر نہیں آ رہا کیونکہ یہاں اپنے مفادات کے لیے لوگ روز اپنی وفاداریاں تبدیل کرتے نظر آتے ہیں جن کو صرف اپنے مفادات سے غرض ہوتی ہے ریاست کی فلاح بہبود اور قومی ترقی سے انہیں کوئی غرض نہیں ہوتی حکومت بہت سے مافیا کو ختم کرنے کی بات کرتی ہے مگر خود حکومت مافیا کے درمیان پھنسی ہوئی ہے پاکستان کی سیاست میں بھی عجیب روایت چلی آ رہی ہے ایک دور میں دوسروں کو برا بھلا کہنے والے دوسرے دور میں انہیں کے ساتھ ہوتے ہیں پاکستان میں جاگیر دار اور سرمایہ دار طبقہ بھی سیاسی نظام پر قابض ہے اس وجہ سے نچلے اور متوسط طبقے کو اس میں جگہ ملنا ممکن ہی نہیں جب تک اس نظام میں خاطر خواہ تبدیلی نہیں کی جاتی تب تک ایک حقیقی فلاحی ریاست جس میں عوام کے حقوق کو بنیادی اہمیت حاصل ہو بننے میں بہت دیر لگے گی ہمارے بعض اداروں میں اب تک انگریز کے بنائے ہوئے قوانین چل رہے ہیں جوکہ اس نظام کو بدلنے میں ایک رکاوٹ ہیں لہذا ایک فلاحی ریاست قائم کرنے کے لیے اسلامی تعلیمات اور اسلام کے رہنما اصولوں کو اپنانا ہو گا تب ہی حقیقی ریاست مدینہ طرز کی حکومت قائم ہو سکتی ہے۔بقول اقبال
جلال پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں