ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ہزارہ کو جہاں اللہ تعالیٰ نے قدرتی حسن سے مالا مال کیا ہے وہیں اس میں ایسے رجال بھی پیدا ہوئے جن کا ذکر آج بھی دلکشی و رشک کا سبب ہے۔وادی کنہار بالاکوٹ میں کئی شخصیات نے جنم لیا جن کا آج بھی علمی روحانی دنیا میں نام و مقام ہے۔حضرت میاں جمال ولی ؒ ہوں یا شہداء بالاکوٹ ہر ایک کی اپنی ہی شان ہے۔
حضرت مولانا ولی اللہ رح کمی والے مولوی صاحب کا نسبی تعلق مارشل قوم گوجر کی گوت پسوال سے ہے۔آپ حضرت مولانا عین الدین پسوال کے ہاں حسہ بالاکوٹ 1910ء کو پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی قرآن کریم ناظرہ درس نظامی کی کچھ ابتدائی کتب اس کے بعد کیوائی کے مقام پہ حضرت مولانا ولی الرحمن
ؒ سے علم میراث میں مہارت حاصل کی آپ علمی خانوادہ کے چشم و چراغ تھے۔
دینی علوم کے حصول کے لیے ازھر ھند دارالعلوم دیوبند کی طرف رخت سفر باندھا وادی کاغان میں کئی فصلاء دیوبند گزرے ہیں۔
مشائخ دیوبند کا اس خطہ میں خانوادہ جمالیہ گھنیلا شریف کے بزرگوں سے گہرا تعلق رہا حضرت لاہوری رح حضرت ہزاروی رح حضرت نانوتوی رح حضرت شیخ الہند ؒ خانوادہ کاشمیری دو نسلیں یہاں فیضیاب ہوئیں۔کمی والے مولوی صاحب ؒ دارالعلوم دیوبند سے 1935 ء میں سند فراغت حاصل کر کے وطن واپس ہوئے۔آپ کے والد واصل بحق ہو گے تھے اور والدہ نے اجازت نہ دی اس بناء پہ آپ نے کہیں اور کا ارادہ ترک فرمایا۔
آپ اپنے وقت کے مفتی اعظم تھے وسائل کی عدم دستیابی کے سبب تصنیف و تالیف نہ ہو سکی۔لکھنے میں بھی مہارت رکھتے تھے۔تحریر میں خاص ملکہ رکھتے تھے۔آپ کا فتوی پورے سرحد میں مشہور تھا۔وقت کے فقہاء آپ کے سامنے زانو ادب ٹیک دیتے تھے
ہم نے مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانی رح کے بارے میں سنا۔مسائل میں خط و کتابت یا اس دور کے لحاظ سے ربط رہتا تھا۔والدین کی دعائیں بھی اور خاندان کا علمی روحانی ورثہ خاندانی علماء کو اللہ تعالیٰ عطاء کرتا ہے وہ ہم آپ آج بھی مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
مولانا شیر محمد بالاکوٹیؒ نے حضرت کے سوانح کے اخر میں لکھا ان ہی کا جملہ نقل کرتا ہوں۔کمی والے مولوی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے بہت علم سے نوازا تھا مگر شومء قسمت ہماری بد اعمالیوں کی وجہ سے ہم اللّٰہ تعالیٰ کے مقبول بندوں سے واقف نہیں ہوتے آپ خاندان سے ضلع کے قدیم علماء استفاذہ کرتے رہے۔
آپ کے دادا سے حضرت مولانا محمد شعیب صاحب پنجول والے نے پڑھا اس کے علاوہ اک لمبی فہرست ہے اللّٰہ تعالیٰ ان کی سعی جملیہ کو قبول فرمائے ان کے متعلقین کو ان کے مشن سے وابستگی نصیب فرمائے ان شخصیات کی خدمات پہ کئی کتابیں مقالات لکھے جا سکتے ہیں یہ فقط مختصر خاکہ ہے۔
ہماری تحریر کا مقصد ایسی نایاب شخصیات کا ذکر خیر اور خراج تحسین پیش کرنا ہے جو ان نا مساعد حالات میں دین متین کی اشاعت سے ایسا جڑے اپنی زندگیاں وقف کر دیں اور اسی عمل کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا۔ہمیں اہل علم شخصیات کی اہل اللّٰہ کی قدر کرنی چاہیے اور جو علم و معرفت کے موتی ان کے پاس ہیں
حصول کی کوشش کرنی چاہیے۔اس وقت کسی کو شائد علم نہ ہو کہ علم کا یہ مہتاب ہمارے پاس ہے آج ان کی وفات کے کئی سال بعد ہم شب کے اس حصے میں ان پہ چند سطور کا خراج پیش کر کے جو سرور حاصل کر رہے ہیں یقینا یہ محبت کا القاء من جانب اللہ ہے۔بعض مصنفین نے سہوا ان کو قریشی لکھا ہے آپ کا تعلق مارشل قوم گوجر کی گوت پسوال سے ہے
ریکارڈ درست فرمائیں۔حاجی ارشاد جی نے سماجی رابطہ پہ ہماری تحریر پہ یہ تبصرہ فرمایا ”حضرت مولانا ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ علم کا سمندر تھے
مگر نامساعد حالات کے پیش نظر ان کے علم سے خاطر خواہ استفادہ نہ کیا جا سکا مگر علم کے قدر دانوں نے پھر بھی حضرت کو ڈھونڈا اور استفادہ کیا قطب وقت ولی کامل میرے شیخ حضرت مولانا محمد عالم صاحب رحمۃ اللہ علیہ بانی جامعہ فاروقیہ شرقپور روڈ شیخوپورہ نے حضرت ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے علمی استفادہ کیا قدوری پڑھی حضرت جی ھل چلاتے جاتے اور اپنے عظیم شاگرد کو پڑھاتے جاتے
مولانا محمد عالم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کتاب اٹھائے اپنے عظیم استاد کے پیچھے پیچھے عبارت پڑھتے جاتے جن کا فیض الحمدللہ سارے عالم میں جاری وساری ہے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ قیامت کی صبح تک یہ علمی فیض جاری رہے آمین یارب العالمین۔