114

جنرل سیسی جنرل ضیاء کے نقش قدم پر /مسعود حسن راجہ

گذشتہ دنوں مصری فوجی آمر جنرل سیسی کے تابع مصر ی کانگرو کورٹ نے مصر کی گذشتہ پانچ ہزار تاریخ کے پہلے منتخب صدر اور عوامی تائید و عنایت سے قصر صدارات میں قدم رکھنے والے سربراہ مملکت محمد مرسی کو سزائے موت سنائی ہے۔مصر کی غیر منتخب اور غیر اخلاقی فوجی حکومت کے ہاتھوں مصری عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے بعد وہاں بزور شمشیر معزول صدر کو جیل توڑنے کے لغو اور بے بنیاد الزامات کے تحت سزائے موت کی انتہائی سزا کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں بھی عوامی اکثریت رائے سے منتخب وزیر اعظم کا غاصب اور غیر آئینی فوجی آمر کے ہاتھوں عدالتی قتل ہماری سیاسی تاریخ کا ایک المنا ک باب ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے دن سے آج تلک سرزمین پاکستان کو سیاسی استحکام حاصل نہیں ہواہے۔بھٹو کا عدالتی قتل بلاشبہ ہماری قومی تاریخ کا ایک بدنما دھبہ ہے۔ اس سے قبل برادر اسلامی ملک ترکی میں بھی 1960میں فوجی آمر جنرل گرسل نے ترکی کے ہر دلعزیز اور مقبول وزیراعظم جنہیں ترکی کے عوام نے کثرت رائے سے منتخب کیا تھا انہیں ترکی میں آذان کی اجازت اور اسلامی مدرسوں سے قفل ہٹانے اور اسلامی تعلیمات رپر پابندی ختم کرنے کے ’’جرم‘‘ کی پاداش میں سولی چڑھادیا تھا۔ عدنان مہندریس کے سزائے موت کے بعد نصف صدی کے عرصہ تک ترکی سیاسی بدامنی اور خلفشار کا شکار رہا ۔ انجام کارجب عدنان مہندریس کی اسلامی سیاسی افکار رکھنے والی جسٹس پارٹی ایک طویل سیاسی جہدوجد کے بعد ترکی میں مسند اقتدار پر بیٹھی تو ایک دہائی قبل اس نے ترک کے پارلیمنٹ کے اکثریتی فیصلے کے ذریعے عدنا ن مہندریس کا قومی تشخص بحال کرکے انقرہ جیل کے احاطے سے اپنے شہید راہنما ء کی باقیات کو نکال کر انہیں ترکی کے قومی قبرستان میں پورے اعزاز کیساتھ دفن کیا۔وہ رتبہ و مقام جسے پاکستانی عدالتیں ذوالفقار علی بھٹو کو آج دن تک نوازے سے ناکام رہی ہیں۔آئیے ہم اس امر کا جائزہ لیں کہ مصر کے منتخب معزول صدر محمد مرسی کے اصل ’’جرائم‘ کیا تھے۔جن کی انہیں اس درجہ کڑی سزاء دی جا رہی ہے۔محمد مرسی مصر کی تحریک اسلامی ،اخوان المسلمین سے تعلق رکھتے ہیں۔جو مسلم امہ کے اتحاد اور علامہ اقبال اور جمال الدین افغانی کے نظریہ اسلامک پان ازم سے متاثرہے۔کم و پیش پانچ دھائیوں تک جمال عبدالناصر ،انوار سادات اور حسنی مبارک کے آمرانہ ادوار میں اخوان المسلمین کے کارکنوں کو قید وبند کی سزاؤں کے علاوہ بدترین ذہنی و جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا لیکن مصری عوام میں اپنی گہری جڑیں رکھنے کے سبب اخوان المسلمین کے کارکن ہر قسم کی سختیوں اور پابندیوں کے باوجود کام کرتے رہے۔حالیہ برسوں میں جب عرب ممالک میں ’’عرب بہار‘‘ کے نام سے عوامی بیداری کی لہر اٹھی تو مصر ی عوام نے اپنے غصب اور سلب شدہ حقوق کی بازیابی کے لئے امریکی اور اسرائیلی لے پالک حسنی مبارک کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔کافی ہنگاموں اور خون ریزی کے بعد جب پانچ ہزار سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر الیکشن ہوئے تو ان میں اخوان المسلمین اور اس کے اتحادی اسلامی فرنٹ کو اکثریت حاصل ہوئی۔مصری الیکشن کمشن اور فوج نے کئی دن تک مرسی کی واضع فتح کو تسلیم کرنے میں پس و پیش سے کام لیا لیکن شیدید عوامی دباؤ کے تحت مرسی کی فتح کو تسلیم کر لیا۔یاد رہے کہ انوارسادات اور حسنی مبارک کے سیاہ دور تک مصر امریکہ اور اسرائیل کا حاشیہ بردار رہا ہے۔کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد گذشتہ چار دہائیوں سے مصر ،اسرائیل کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ امریکی امداد حاصل کرنے والا ملک ہے۔محمد مرسی کے اقتدار میں آنے کے بعد مصری سپریم کورٹ اور مسلح افواج نے خزانے، دفاع اور خارجہ امور کی وزارتیں اپنے پاس رکھیں ۔ ان رکاوٹوں کے باوجودمحمد مرسی نے حسنی مبارک کی سابقہ اسرائیل نواز پالیسوں کو ترک کرتے ہوئے غزہ سے منسلک ’’رفاہ‘‘ کی سرحد کو کھول دیا۔یوں اسرائیلی مظالم کے شکار فلسطینی بھائیوں سے نہ صرف اظہار یک جہتی کیا بلکہ انہیں خوراک اور ادویات بہم پہنچائیں نیز محمد مرسی نے نہ صرف ایران ،ترکی اور پاکستان کے دورے کیئے اور عالمی سطح پر ایک ’’منی اسلامی اتحاد‘‘ بنانے کی کوششیں کیں بلکہ اسلامی سربراہی کانفرنس کو فعال کرنے کی تجویز لے کر پاکستان بھی تشریف لائے۔ان کے ان اقداما ت نے انہیں تل ابیب،ریاض اور واشنگنٹن میں ناپسندیدہ بنادیاسب سے پہلے مصری افواج نے اپنے منتخب صدر کے احکامات ماننے سے صاف انکار کر دیا ۔ساتھ مصری سپریم کورٹ جس میں حسنی مبار ک کے عہدکے خائن اورکرپٹ جج صاحبان براجمان تھے۔مصر کی منتخب پارلیمنٹ کو کالعدم قرار دے دیا۔ جس نے مصر میں جہوری روایات کی بیخ کنی کر دی۔ اس سے قبل اہل مغرب کی کرم فرمائیوں سے الجزائر اور مقبوضہ فلسطین(مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی ) میں جب بتدریج اسلامک فرنٹ اور حماس نے شاندار انتخابی کامیابیاں حاصل کیں تو مغرب کی آشیربا کے تحت ہر دو کی انتخابی کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا گیا ۔جس یہ بات ثابت ہو گئی کہ مغربی سامراج کو اسلامی ممالک میں بذریعہ جمہوری عمل بھی صرف اپنے حواریوں اور پٹھوؤں کی حکومتیں ہی منظور ہیں نہ کہ اپنے عوام کی خیر خواہ اور وفادار حکومت کے۔ یہ امر الم نشرخ ہے کہ اگر مغربی آمر اور امریکی پٹھو ؤں جنرل سیسی نے منتخب مصری صدر محمد مرسی کوجنرل ضیاء اور ترکی کے جنرل گرسل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تختہ دار پر لٹکایا تو اس کے نتیجہ کے طور پر مصر کو بھی سیاسی استحکام نصیب نہیں ہو گا۔ مصری عوام واضع طور پر دو دھڑوں میں تقسیم ہو جائیں گے ۔ وہاں قتل و خون کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا جس کی تمام تر ذمہ داری ایک طالع آزماء فوجی مہم جو جنرل سیسی کے سر ہو گی جو نہ صرف مصر کی آئندہ نسلوں بلکہ تاریخ کے سب سے بڑے اجرتی قاتل کے طور پر جانا اور پہچانا جائے گا۔ مجھے امید کامل ہے کہ مصر کے غیور عوام اپنے بے گناہ منتخب صدر کے خلا ف ایک غیر منتخب اور غاصب فوجی آمر کا سیاہ فیصلہ قبول نہیں کریں گے۔{jcomments on}

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں