قیصر اقبال ادریسی/تھانہ کلرسیداں میں ٹاؤٹوں کا خاتمہ ایک خوش آئند اقدام ہے پولیس اگر اپنے فرائض منصبی احسن طریقے سے سرانجام دے تو وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکتی ہے، پولیس پر اکثر یہ الزام عائد ہوتا ہے کہ مدعی نے پیسے دے کر ہمارے خلاف مقدمہ درج کرایا اور یہ بھی الزام عائد ہوتا ہے کہ ملزم نے پولیس کو پیسے دے دیے تب ہی ہمیں انصاف نہیں مل رہا اس صورت حال میں اہم کردار ٹاؤٹ ادا کرتا ہے جو پولیس اور سائلین کو اس بات پر اس لیے راضی کرتا ہے کہ اس کی اپنی جیب گرم ہو، وہ اپنے پاو گوشت کے لیے کسی غریب اور مظلوم کی پوری گائے ذبح کروا دیتا ہے۔اگر پولیس اور سائلین کے درمیان سے ٹاؤٹ نکل جائے تو آدھے مسائل حل ہوجاتے ہیں، پولیس بھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہے ہم جیسے انسان ہیں اچھے اور برے انسان ہر جگہ ہر شعبہ اور ہر مکتبہ فکر میں موجود ہوتے ہیں، محکمہ پولیس میں اس وقت بھی اچھے اور ایماندار لوگ موجود ہیں یہ راے قائم کرنا کہ سب ہی ایک جیسے ہیں یہ کہنا کسی بھی صورت میں درست نہیں۔پولیس سمیت دیگر سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت ایک زہر قاتل کا کردار ادا کرتی ہے ایک مناسب چیک اینڈ بیلنس کا ہونا انتہائی ضروری ہے مگر یہ کسی بھی صورت میں درست نہیں کہ اپنے سیاسی مقاصد کے لیے پولیس، محکمہ مال اور دیگر اداروں میں مداخلت کی جائے۔تھانہ کلرسیداں کے مین گیٹ پر ایس ایچ او غضنرعباس کی طرف سے ایک بینر نصب کیا گیا ہے کہ تھانہ کلرسیداں میں ٹاؤٹوں کا داخلہ منع ہے اور دوسرے بینر میں درج ہے کہ شہری جائز کام کے لیے اپنی درخواست فرنٹ ڈیسک پر دیں کسی بھی ٹاؤٹ کو اپنے ہمراہ نہ لائیں اور یہ بھی درج ہے کہ اگر کوئی پولیس آفیسر آپ کے جائز کام کے لیے رشوت کا تقاضا کرے تو ایس ایچ او کلرسیداں کو اطلا ع کریں۔ سب سے اچھی بات جو مجھے لگی وہ یہ درج تھی کہ (سفارش دو صورتوں میں ضرورت ہوتی ہے، جب آپ کو آپ کاحق نہ ملے دوسرا جب آپ اپنے آپ حق سے زیادہ چاہتے ہیں، پہلی صورت ہم نہیں پیدا ہونے دیں گے دوسری صورت آ پ پیدا نہ ہونے دیں) اس بات پر اکثر لوگوں کی راے یہ ہے کہ یہ صرف دکھلاوے کے لیے ہے اصل میں ایسا ممکن نہیں اگر یہ بات مان بھی لی جائے تو تب بھی یہ ایک ایسا عمل ہے جو ماضی میں کھبی نہیں ہوا۔ہم نے تو گزشتہ ادوار میں یہ بھی دیکھا کہ تھانہ کلرسیداں میں اگر کسی مقدمہ میں سیاسی مداخلت ہوجاے تو جائزایف آئی آر بھی کرانا بھی ناممکن ہوجاتا، سائلین تھانہ اور سی پی آو آفس اوردیگر دفترں کے چکر لگا لگا کر نڈھال ہوجاتے مگر ایف آئی آر اس وقت تک نہ ہوتی جب تک سیاسی شخصیات کی طرف سے این او سی نہ مل جاتا۔ تمام سرکاری اداروں میں سیاسی مداخلت عروج پر تھی، سیاسی فرمان کواہمیت حاصل تھی چاہیے وہ کسی مظلوم کے خلاف ہی کیوں نہ ہواس پر عمل درآمد ہر صورت پر کیا جاتا تھا۔میرا لکھنے کا یہ ہر گز مقصد نہیں کہ اب تھانہ میں تمام معاملات درست ہوگہیں سب کو انصاف مل رہا ہے کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہورہی ایسا ہر گز نہیں ہے، کسی بھی شعبہ یا محکمہ میں سو فیصد معاملات درست نہیں ہوتے مگر کوشش اور نیت سے کسی بھی شعبہ میں معاملات میں بہتری کی توقع کی جاسکتی ہے، لیکن میں یہ ضرور کہوں گا اس وقت تھانہ کلرسیداں میں سیاسی مداخلت کو قبول نہیں کیا جارہا، ٹاؤٹ بے روز گار ہوچکے ہیں یہ ایک خوش آئند بات ہے جس کا کریڈیٹ ایس ایچ او تھانہ کلرسیداں غنضفر عباس کو جاتا ہے۔میں نے اپنے دور صحافت میں سب سے زیادہ تنقید پولیس پر کی مگر جو اقدام درست ہو میرٹ پر ہو اس کو لکھنا میرے فرائض میں شامل ہے۔ میں کسی بھی صورت میں پولیس یا کسی بھی محکمہ کی غیر ضروری حمائت نہیں کرتا لیکن جو حقائق ہیں ان کو سامنے لانا میرا صحافتی فریضہ ہے۔دوسری طرف پولیس کو بھی چاہیے کہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لیے عوام دوست اقدامات کریں کسی بھی سیاسی دباؤکو بالاے طاق رکھتے ہوے میرٹ پر کام کریں، مظلوم کی ہر صورت مدد کرتے ہوے اسے انصاف دلائیں اور ظالم کو کیفر کردار تک پہنچا کر اپنی وردی کا حق ادا کریں یہ ہی آپ کی اصل دینی اور دنیاوی کامیابی ہے۔
134