طالب حسین آرائیں/ازل سے زمانے پر ایک ابدی استغراق مسلط ہے لمحے اس ابدی استغراق میں گذر رہے ہیں ساعتیں تمام ہورہی ہیں اور وقت بہہ رہا ہے حیات کی تیزگامی برقرار ہے ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں خود غرضی اورحق تلفی کا رواج ہے اور یہ حق تلفی ہر سطح پر نظر آتی ہے زمانہ کوئی بھی ہو بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے ہر دور میں اپنا فرض انتہائی ذمہ داری سے ادا کرتے ہیں کیاسیاست دان کیا ادارے کیا حکمران سب ہی عوام کے حقوق کی پامالی میں مصروف ہیں۔کہاوت ہے کہ جھوٹ کے پاوں نہیں ہوتے لیکن یہاں تو جھوٹ کا چہرہ بھی نہیں ہے سر سے پاؤں تک بے بنیاد باتوں‘خوابوں اور وعدوں کا چلتا پھرتا وجود ہے اور ہم عوام بہت ہی سادے ہیں لیکن نہیں ہمیں بڑی آسانی سے بے وقوف بنا لیا جاتا ہے کیونکہ سادگی اور بے وقوفی میں بس دوچار ہاتھ کا ہی فرق ہوتا ہے ہم نے ہر دور میں خود کو بے وقوف ثابت کیاہے۔کبھی روٹی کپڑا اور مکان کے نام پر تو کبھی ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کے خواب پر اور اب نئے پاکستان اور تبدیلی دعوے پر‘ہم اپنے اجتماعی مفادات بھلاکر اپنی اپنی جماعت کے جھوٹے بیانیے پر طبقوں میں بٹ چکے ہیں جس کا فائدہ ہمارے رہنما اور منتخب نمائندے ہمیں حقوق سے محروم رکھ کراٹھاتے ہیں۔ہم جدید دور میں بھی بنیادی سہولتوں صاف پانی‘بجلی‘گیس اور آمدرفت کے ذرائع سے یکسرمحروم ہیں ہم بیول کو گرد ونواح کے علاقوں سے منسلک کرنے کے حوا لے سے بنائی جانے والی لنک روڑز کا جائزہ لیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارے منتخب نمائندے ہمیں کس سطح پر مقید رکھنا چاہتے ہیں بیول سے جبر‘جبر سے رتالہ راجگان‘جبر سے حبیب چوک‘بیول سے سموٹ‘بیول سے گوجرخان کو ملانے والی سڑکیں آثار قدیمہ کا منظر پیش کرتی ہیں بیول کی محرومیوں کی ایک لمبی داستان ہے۔علاقے کے عوام کو ایجوکیشن‘ہیلتھ اور آمدورفت کے لیے سڑکوں سے محروم رکھنے کی اس طویل داستان میں پاکستان مسلم لیگ کا کردار سب سے زیادہ ہے کہ اس جماعت کے نمائندے ایک طویل مدت تک اس حلقے کی نمائندگی کرتے رہے۔لیکن کارکردگی پر نظر ڈالیں تو وہاں کوئی بھی ایسا پروجیکٹ دیکھائی نہیں دیتا جسے زیرقلم لایا جاسکے۔پیپلزپارٹی کے دور میں بھی اس علاقے کو نظر انداز کیا گیا۔گو کہ وزرات عظمیٰ کے دوران راجہ پرویز اشرف نے گوجر خان میں پاسپورٹ آفس‘ریلوے انڈر پاس اور کافی دیہاتوں میں گیس وبجلی کی فراہمی کے منصوبے مکمل کیے تاہم منصب کے تناظر میں یہ کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔پی ٹی آئی کی خدمات پر تو مدت مکمل ہونے پر ہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے لیکن ان دوسالوں کے کارکردگی دیکھ کر ان سے بھی کوئی زیادہ امید نہیں رکھنا چاہیے۔اور ویسے بھی اس جماعت کے نزدیک قومیں سڑکیں بنانے سے نہیں بنتیں۔راجہ پرویز اشرف کی اسکیم سے تعمیر بیول ٹو جبر سڑک ناقص میٹریل کے استعمال کے باعث عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے بجائے ان کی مشکلات میں اضافے کا سبب بنی ہے سڑک کی تعمیر کے کچھ ہی عرصہ بعد سڑک نے پتھر اگلنے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ ہنوز جاری ہے اس سڑک پر سفر کرنے والا شخص ہی اس سفر کی اذیت بیان کر سکتا ہے۔لیکن کیا کیا جائے کہ اس ملک میں جزاء سزا کے نہ ہونے سے ملک کے طول وارض میں ہر منصوبے کے ساتھ یہی کچھ ہوتاہے یہاں یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ جو برا نہیں ہے وہ بیوقوف ہے بڑے ہوشیار کو بھی کوئی زیادہ قصور نہیں کیونکہ وہ اپنی برائی کا ایک تہائی ہی ذمہ دار ہے باقی ذمہ داری اس سماج کی ہے۔جو اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے والی لوٹ مار پر خاموش رہتا ہے۔اگر اہل علاقہ اپنے اپنے طور سرکاری منصوبوں پر نظر رکھتے ہوئے ٹھیکے میں طے شدہ ریشو اور دیگر شرائط کی معلومات حاصل کریں اور ملکر ٹھیکیدار کو اس کی پابندی پر مجبور کریں تو کوئی بھی منصوبہ ناقص میڑیل کی نظر نہ ہوسکے۔لیکن کیا کریں کہ ہم کئی طبقوں میں بٹ چکے ہیں اور کوئی بھی دوسرے طبقے کی بات سننے پر نہ آمادہ ہے اور نہ ہی اس کی بات کو سمجھنا چاہتا ہے۔کیونکہ بات کہنے والا اس کی جماعت کا مخالف ہے۔اب مخالف چاہے درست بات ہی کر رہا ہومیرے نزدیک وہ جھوٹا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم لوگ اپنے اپنے سیاسی خول سے باہر نکلیں اور اپنی نسل نو کو ایک ترقی یافتہ‘ مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرہ ہینڈاوور کرنے کے لیے اپنے حقوق کی جنگ ملکر لڑیں۔کیونکہ یہ ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔
175