زندگی میں بعض اوقات ایسی اُداسی‘ویرانی اور حیرانی ڈیرے ڈال لیتی ہے کہ ہردم آنکھوں میں اشکوں کی فراوانی دل کو غم نہیں بلکہ کچھ اور طرح کی پریشانی جکڑ لیتی ہے۔حالات کی کشیدہ یکسانیت انسان کو توڑ دیتی ہے عین اس طرح جس طرح مایوس کن اور تباہ کن حالات نے پاکستانی قوم توڑ کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے زندگی میں کوئی نظارہ نہیں رہا۔کوئی پرکشش امیدباقی نہیں بچی۔بس ہم ہیں اور ہمارے خواب ہیں خواب ساتھ ہوں تو منزل کی جستجو تادیر تازہ دم رکھتی ہے دشواریوں اور بے سروسامانی کے باوجود قوم گذشتہ پچہتر سال سے تھکی نہیں کیونکہ آزادی کی جدوجہد کے دوران پاکستانی ریاست بارے جو خواب ہمارے آباؤاجداد نے دیکھے ہم ان خوابوں کی تعبیر کے انتظار میں حکمرانوں‘ مہربانوں اور افسر شاہی کی عیاشیوں‘لوٹ مار اور اقراباء پروری کی روش کو برداشت کرتے رہے لیکن شاید اب ظلم وزیادتی حد سے بڑھ چکی قوم کی برداشت ختم ہوچکی اشکوں کی روانی نے ہمارے خواب دھندلا دیئے ہیں۔ہر محکمہ کے افسران محکمہ کو ذاتی جاگیر سمجھ کر چلا رہے ہیں انہیں عوام کے دکھ درد اور اذیت کا احساس تک نہیں۔ہر ادارے کی من مانیاں عروج پر ہیں جس طرح محکمہ گیس بارے بیول سے سامنے آنیوالی خبروں میں انکشاف کیا گیا ہے کہ محکمہ کی جانب سے عوام کی تکالیف کو نظر انداز کرنے کا عمل تواتر سے جاری ہے۔ سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر شب گیارہ بجے سے صبح چھ بجے تک بیول اور گرد ونواح کے علاقوں کے گھریلو صارفین کو گیس کی سپلائی بند کردی جاتی ہے جبکہ اس دوران سی این جی پمپس پرخفیہ طور پر گاڑیوں میں فلنگ کی جاتی ہے ان خبروں پر شک وشبہ کی گنجائش اس لیے بھی نہیں کہ جس ملک میں صاحب کے دفتر کے باہر بیٹھے چپراسٹی کی آشیرباد اور اجازت کے بغیر سائل صاحب سے مل نہیں سکتا وہاں افسران محکمہ کو جس انداز سے چلانا چاہیں چلا سکتے ہیں جو کچھ اس قوم کے ساتھ ہورہا ہے وہ بہت ہی روح فرسا اور اندوہناک ہے صارفین کو گیس کی بندش اور سی جی این کو فراہمی اور فلنگ کی اجازت کے پس پشت کوئی عام اہلکار تو نہیں ہوگا اور یہ اجازت نہ ہی دوستی اور مروت کا باعث ہوگی۔بلکہ اس کی پشت پر یا تو سیاسی سفارش ہوگی یا قائد کی تصویر والے کاغذ کا کمال۔کیونکہ سرکاری افسران ان دو باتوں پر ہی اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں گیس بندش یقیناً گیس کی کمی کی وجہ سے بھی ہورہی ہے لیکن اگر گیس قلت بندش کی وجہ ہے تو سی این جی پر فلنگ کی اجازت کس طرح دی جاسکتی ہے قوم کو جنات کے سائے کی طرح مسلط سیاستدان اسٹیبلشمنٹ اور بیورو کریسی کے کرتا دھرتا یاد رکھیں کہ ظلم جب حد سے بڑھتا تو بغاوت کو جنم دیتا ہے شاید پاکستان میں اب وقت کچھ زیادہ دور نہیں۔جب بھوک ننگ سے ستائے عوام سیاست دانوں محافظوں اور افسرشاہی کے قیصر وقصرا پر ہلہ بولیں گے۔اس وقت کے آنے سے پہلے اپنے اپنے پیٹ حلال سے بھرنے کے سفر کا آغاز کرلیں۔کیونکہ ایسا وقت سر پر آن پہنچا ہے۔
98