شرمناک کھیل کھیلنے والے بے حسی اور سنگدلی کا۔ مظاہرہ کرنے کے باوجود انتہائی وقار اور عزت کی چادر اُوڑے مگر غلاظت سے لتھ فچڑے اُن کے ضمیر کیسے کیسے گناہوں سے آنکھ مچولی کرتے ہیں۔کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ معاشرے کے بااختیار درندے آبادیوں میں گھس آئے ہیں جو دیدہ دلیری اور بڑی بے خوفی سے اپنے اختیارات کو معاشرے کے کمزور طبقات کی بے توقیری اور تذلیل کے لیے استمال کرتے ہیں۔ اس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے عدالتی سیاسی اور ریاستی نظام میں سفارش‘ رشوت اور اقراباء پروری بدرجہ اتم موجود ہے اہلیت کردار اور قابلیت کے بجائے محض قرعہ اندازی سے ریاست کے ناخدا منتخب کرلینا ایک روایت بن چکی ہے
اور پھر ان ناخداؤں کی میرٹ کوپامال کرکے سیاسی بنیادوں پر افسران کی بھرتیاں معاشرتی تباہی کا باعث بن رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ بیور کریسی میں ایک غالب اکثریت نااہلوں کی نظر آتی ہے جو اپنے اختیار کو سماج کی بہتریکے بجائے شان وشوکت دیکھانے اور اپنے رعب ودبدبے کے لیے استعمال کرتے ہے۔ گذشتہ دنوں بیول میں اسی سوچ کی حامل ایک سرکاری آفیسر خاتون کے اسی طرح کے طرزعمل نے شہر میں ایشو کھڑا کردیا۔شبابہ نذیر نامی خاتون جو خود کو اسپیشل پرائز کنٹرول مجسٹریٹ بتا کر بیول کے تاجروں پر بھاری جرمانے عائد کررہیں تھیں
عوامی شکایت پر پریس کلب بیول کے صحافی حضرات موقع پر پہنچے اور مذکورہ خاتون کو اپنا تعارف کرواتے ہو انہیں اپنی سرکاری شناخت کے حوالے ڈاکومنٹس دیکھانے کا مطالبہ کیا اصولی اور اخلاقی طور پر مذکورہ خاتون آفیسر کو اپنے متعلق جعلی آفیسر ہونے کے شکوک کو دور کرنے کے لیے عوام کو اپنی شاخت پر مبنی کوء بھی پروف دے کر مطمئن کرناچاہے تھا۔لیکن اس کے برعکس خاتون نے خود کو گاڑی میں بند کرلیا دوسری جانب ان کے ساتھ گارڈ کے فرائض سرانجام دینے والے پولیس اہلکاروں خود کو گوجرخان پولیس کا اہلکار بتایا جو گوجرخان تھانے سے پوچھنے پر جھوٹ ثابت ہوا اس طرح جعلی سازی کا شک مزید پختہ ہوا۔ مقامی صحافیوں نے قاضیاں پولیس چوکی فون کر کے پولیس طلب کرلی۔تمام واقعہ سننے کے بعد پولیس نے روایتی انداز میں اپنے پیٹی
بھائی خاتون کے گن مین پولیس اہلکار علی سردار کی مدعیت میں بیول کے صحافیوں فراز خان‘چوہدری اخلاق کے خلاف کار سرکار میں مداخلت کا مقدمہ درج کرلیا ان دونوں کے علاوہ کچھ تاجروں پر بھی مقدمات درج کیے گئے۔جو ضمانتوں پر ہیں کہتے ہیں ہوشیارکی ہوش سے یاری ذرا کم ہی ہوا کرتی ہے ہوشیاری دیکھاتے ہوئے مقدمہ تو درج کروا لیا گیا لیکن مبینہ طور پر خود ان کے خلاف محکمہ جاتی انکوئری شروع ہونے کی اطلاعات ہیں۔ انکوئری ٹیم کو موصوفہ سے پوچھنا چاہیے کہ اگر وہ راولپنڈی سے نکل کر بیول میں اشیاء خورد ونوش کی قیمتیں چیک کرنے کا اختیار رکھتی تھیں تو اپنی شاخت دکھا نے میں کیا امر مانع تھا۔ جب مقامی صحافی دوستانہ انداز میں آپ سے شاخت دکھانے کا مطالبہ کررہے تھے تو آپ نے اپنی عہدے اور اپنے مرتبے کا لحاظ کیوں نہیں کیا۔کیوں اپنے رویے سے عوام کو شکوک وشبہات میں مبتلا کیا۔شہر کے اندر عوام کے جم غفیر می خود کو تماشہ بنایا اور پھر بے
گناہ لوگوں پر مقدمات درج کروانے کی فرعونیت بھی دیکھائی اور مقدمہ بھی خود سے درج کروانے کی ہمت نہیں ہوئی بلکہ اپنے گارڈ کو استعمال کیا۔یاد رکھیں لوگوں کی راہوں میں کانٹے بچھا کر ان سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپکے گلے میں ہار ڈالیں گے۔کیونکہ ایسا ہونا ایک غیر فطری سی بات ہے۔