219

بوھلی کتا

تحریر:چوہدری ظہیر احمد

ؑEmail:spidernet_leo@yahoo.com
بوھلی کتا کا لفظ دراصل BULL DOG سے بنا ہے ۔یعنی ایسا کتا جس کا سر بیل یعنی داند کی طرح ہو اس سے مشابہت کی وجہ سے ایسے کتے کو بل ڈاگ کہا جاتا ہے ۔لفظ بُل سے بُلی اور بُلی سے بُوھلی بن گیا ۔کتا وفاداری کی بناء پر انسان کے قریب پایا جاتا ہے اور لوگ گھر میں دہشت اور خوف کے لیے کتا ضرور رکھتے ہیں ۔بہر حال کتا ایک نجس و ناپاک مخلوق ہے ۔گیلا کتا جن کپڑوں سے ٹکرا جائے تو کپڑے ناپاک ہوجاتے ہیں ۔پیدائش کے لحاظ سے کتا ایک قدیم مخلوق ہے ۔بوھلی کتا پوٹھوار کی لغت میں سولھویں صدی عیسوی میں انگریز کی آمد کے بعد متعارف ہوا ۔انگریز چونکہ کتوں سے زیادہ پیار کرتے ہیں اورانگریز ممالک میں کتوں کو انسانی حقو ق کے مساوی حقوق حاصل ہیں ۔مسلمانوں کے لیے تو انگریز نے ہائیڈروجن ، ڈیزی کٹر ،جراثیمی اور خارشی بم بنائے ہیں لیکن اپنے کتوں کے لیے محبت بھر ے انوکھے انداز ۔خطہ ہند کے مسلمان کئی کئی دن فاقے کاٹتے تھے اور انگریز بادشاہ کے کتے چُوریاں کھایا کرتے تھے ۔اور انگریز کی دیکھا دیکھی ہمارے مسلمان بھائی جنہوں نے اپنے گھر میں لڑائی اور ریس والے کتے رکھے ہوتے ہیں وہ بھی کھانے میں کتے کو اولا د پہ ترجیح دیتے ہیں۔ان مسلمان بھائیوں کا کتا تو خوب پلا ہوا ہوتا ہے لیکن ان کی اولاد کی جسمانی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔ انگریز اصل میں دبے لفظوں میں مسلمانوں کو یہ پیغام دیتے تھے کہ اگر تم بھی کتوں کی طرح ہمارے وفادار اور خیرخواہ بن جاؤ تو ہم تمہیں بھی چُوریاں کھلائیں گے ۔
کسی بھی خطہ میں جب جبر کی حکومت مسلط ہوتی ہے تو حکومت ایسے قانوں بناتی ہے کہ لوگوں کو ایسی واہیات میں مصروف کردیا جائے کہ لوگوں کو کانوں کان خبر نہ ہو کہ ہم پر آج حکومت کو ن کر رہا ہے ؟لہذا مسلمانوں کو لایعنی اور فضولیات میں الجھا دیا گیا ۔ان ہی فضولیات میں بیل دوڑ، تیتر، مرغ، بٹیر ، کتوں کی لڑائی نمایاں ہیں ۔ہمارے ہاں بھی بعض کتوں کے شائقین اور قدرے دین سے بیزار طبقہ یعنی آزاد طبیعت والے جدید مسلمین ایک بُوھلی کتا بڑے شوق سے پالتے ہیں اور پھر اس کی خوب ٹہل سیوا کرتے ہیں ۔اس کی پرورش پر خوب پیسہ اڑاتے ہیں ، اسے روزانہ گوشت کھلاتے ہیں اور کتے کی رہائش اور دیکھ بھال پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ۔ اسے سائیکل کے پیچھے باندھ کر میلوں روزانہ دوڑایا جاتا ہے تاکہ اس کا سانس خوب پک جائے ۔مالک کتے کی فربہی اور اپنی کمزور صحت کو دیکھ کر مونچھوں پر ہاتھ مارتا ہے اور اعلان کرتا ہے مہاڑا بوھلی کتا مارے ای مارے !مقابلہ ہوتا ہے ،دنگل سجتا ہے ، علاقائی تھانے کو اطلاع کر دی جاتی ہے خوب ھلہ گلہ ہوتا ہے ، جوا لگتا ہے اور ڈوم میراثی ویل بھی خوب لیتے ہیں ۔جب یہ کتے لڑرہے ہوتے ہیں ایک دوسرے کے کان ، ناک ، چہرہ خوب زخمی کرتے ہیں تو عرش معلی پر اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی اس بدحالی اور خونخواری کو دیکھ کرکس قدر غضبناک ہوتے ہیں یہ کوئی صاحب ایمان ہی محسوس کر سکتا ہے ۔نبی کریم ﷺ جن کی صفات عالیہ کا کوئی ثانی نہیں ، وہ اتنے رحمدل اور شفیق کہ جانور ، مویشی ، بھیڑ بکری ، گدھے ، کتے بلی کا بھی ناجائز خون بہتا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے ۔آپ ﷺ نے ہر قسم کے جانداروں کو آپس میں لڑانے اور انھیں تکلیف پہنچانے سے منع فرمایا ہے ۔ماسوائے وہ موذی جاندار جو انسان کو جانی نقصان پہنچائیں ان کو مارنا یا بھگانا جائز ہے ، یا وہ جانور جن کا شکار حلال ہے ۔ ابو ھریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص کنویں میں اترا ، خود پانی پیا اور اپنے جوتے میں پیاسے کتے کے لیے پانی بھر لایا اور پیاسے کتے کو پلایا ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش فرمادی ۔اسی طرح بعض روایات میں بھی ملتا ہے کہ کسی عورت نے بلی کو باندھ کر رکھا تھا اور وہ بھوک کی شدت سے مر گئی تو آپ ﷺ نے اس عورت کو جہنمی قرار دیا کیونکہ اگر وہ بلی کو آزاد کردیتی توکچھ نہ کچھ کھا کر جان بچالیتی ۔اگر اللہ تعالیٰ ایک پیاسے کتے کو پانی پلانے پر بخشش اور ایک بلی کے قتل پر جہنم رسید کرسکتے ہیں تو یہ کتوں کی لڑائی پہ کوئی بازپرس نہیں ہوگی ؟ شاید کوئی کتے ، بٹیر ، تیتر ، مرغوں کے ٹھڑکی یہ دلیل دیں کہ ہم ان کو کھلاتے پلاتے ہیں ، ان کی بھوک پیاس رہائش کا خیال رکھتے ہیں ، آخر ہم ان کی دو دو پھڑکیں دیکھ لیں تو کیا حرج ہے؟ ان لوگوں کو شاید کوئی حرج دکھائی نہ دے کیونکہ تماشائی کا اپنا چہرہ ، بازو ، ٹانگیں سلامت ہیں ، اگر کتے کی قوت گویائی ہوتی تو مالک سے کتا سوال کرتا کہ میرا جسم زخمی کرکے ، کان ناک تڑوا کر ، اتنا خون نکلوا کر تجھے کیا تشفی ہوئی ہے ۔لیکن المیہ ہی یہی ہے کہ کتے کا درد کتے دل والا سمجھ ہی نہیں سکتا ۔اسلام دین فطرت ہے اوراس میں صحت مندانہ سرگرمیوں کی خاصی گنجائش ہے ۔حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو مریل چال چلتے دیکھا تو دُرّہ تان لیا کہ ایسی چال کسی مسلمان کے شایان شان نہیں ۔حتیٰ کہ عمرۃ القضاء میں حضورﷺ نے اپنا دایاں مونڈھا ننگا کریا کہ کفار یہ نہ سمجھیں کہ ہم کمزور ہو گئے ہیں ۔مومن و مجاہد کی بدنی کیفیت کو دیکھ کر ہی اہل کفر پہ لرزہ طاری ہوجاتا ہے ۔ اس لیے خود کو صحت مند رکھنے کے لیے تیر اندازی، گھڑسواری ، کشتی رانی ، چہل قدمی سے نہ صرف وقت گزر جاتا ہے بلکہ اس سے صحت کی بحالی و ارتقاء میں مدد بھی ملتی ہے ۔اور بدن کو تندرست و توانا رکھنا ایک لازمی جزو ہے ۔ ہم اپنے سبھی کلمہ گو بھائیوں ، عزیزوں دوستوں ، پیر اور گدی نشین حضرات سے مخلصانہ عرض کرتے ہیں کہ وہ ان بیٹر، تیتر، ککڑوں اور بوھلی کتوں سے دور ہو جائیں اورمعاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ایسے کھیل کا انتخاب کریں جن پر کم ازکم وقت خرچ ہو اور صحت مندانہ سرگرمیوں کا فروغ ہو۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں