306

بارہویں سالگرہ

اللہ باری تعالی کی ذات کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس کے فضل و کرم سے آج ہم پنڈی پوسٹ کی بارہویں سالگرہ منانے کے قابل ہوئے ہیں ہمارے لیے یہ انتہائی خوشی اور مسرت کی گھڑیاں ہیں کہ اللہ تعالی نے ہمیں ہمت و استقامت اور اپنی غیبی مدد فراہم کیے رکھی کہ ہمارا مشن بغیر کسی روک ورکاوٹ جاری وساری رہا۔قارئین کا بھی تہہ دل سے ممنون و مشکور ہوں کہ ان کی جانب سے ملنے والی حوصلہ افزائی ہمارے لیے آکسیجن ثابت ہوتی رہی۔

لاریب اگر انسان کی نیت میں اخلاص کام سے لگن انسانیت کی خدمت نصب العین‘حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار اور کامیابی اور صلہ کی توقعات صرف اور صرف اللہ تعالی کی ذات سے وابستہ ہوں تو پھرکاٹنوں بھری راہیں بھی پھول کی سیج بننے میں دیر نہیں لگتی۔ دور کی منزلیں بھی قریب نظر آنے لگتی ہیں۔
رزق حلال سے پرورش والدین اساتذہ اور معاشرہ کی بہترین تربیت اور کتاب دوستی کا ماحول میسر آجائے تو انسان کے دل ودماغ میں بچپن ہی سے مثبت سوچ کی کونپلیں پھوٹنا شروع ہوجاتی ہیں پھر جیسے جیسے انسان کا جسم ارتقاء پذیرہوتا ہے اس کی سوچ میں بھی پختگی آنا شروع ہوجاتی ہے

ایک دن پھر ایسا بھی آتا ہے کہ سوچ پر عمل کا خول چڑھنا شروع ہوجاتا ہے یہی کامیابی کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے۔گاؤں سے پرائمری کے بعد چھٹی جماعت میں گیا تو اخبار اور کتابوں سے دوستی کا اولین زمانہ شروع ہوا پھر الحمدللہ سکول اور کالج کے زمانہ طالبعلمی میں ایسے دوستوں کا ماحول میسر رہا جن کا رحجان ومیلان لائبریری اور کتاب بینی تھا۔
گریجویشن کے بعد خدمت کے جذبہ کے تحت صحافت کے عملی میدان میں قدم رکھاابتدائی دنوں میں کافی دشواریوں اور پریشانیوں کا سامنا رہا لیکن برادر اصغر محمد حبیب بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوا انھوں نے ہمت دی اخلاقی ومالی مدد کی میرے شوق وجذبہ کو تقویت پہنچانے کے لیے دن رات ایک کیے رکھا۔
دو مئی 2012ء کو پنڈی پوسٹ کا پہلا شمارہ مارکیٹ میں آیا تو ان کا چہرہ خوشی سے پھولے نہ سمایا جارہا تھا قارئین کے دست میں اپنا اخبار دینا ان کے لیے اعزاز سے کم نہ تھا چونکہ انہوں نے میرے شوق کی تکمیل کے لیے اخبار فروشی کے شعبہ کو اپنانے کیلئے ذرا بھی حیل وحجت سے کام نہیں لیا تھا بلکہ زندگی کے آخری سانس تک میرا بازو بنے رہے پھر اسی اخبار کی تقسیم کے دوران ہی ٹریفک حادثہ میں جان کی بازی بھی ہا ر گئے۔
جوانی میں بھائی کی ناگہانی موت نے مجھے جھنجوڑ کررکھ دیالیکن بھتیجوں محمد نوید اور محمد وسیم نے میرے ارادوں اور جذبوں میں لغزش نہ پیدا ہونے دی ہمت و حوصلہ دیتے ہوئے بھائی حبیب کی طرح میرے دست و بازو بن گئے پنڈی پوسٹ کی سرکولیشن و تقسیم کے تسلسل کو اس طرح جاری وساری رکھا جس طرح محمد حبیب نے نیٹ ورک بنایا ہوا تھا انکی مسلسل محنت اور پنڈی پوسٹ کے جملہ سٹاف کی جدوجہد سے اخبار کی ڈیمانڈ میں اتنا اضافہ ہوگیا کہ ہر شہراور علاقہ میں بیک وقت قارئین کا پہنچناایک مسئلہ بن گیاجس سے نبردآزما ہونے کے لیے بڑے بھائی محمد حنیف بھی میرا بازو بنتے ہوئے میدان آگئے انہوں نے اپنے ذاتی کاروبار کو پش پشت رکھتے ہوئے ایک مشن و جذبہ کے تحت روات کلرسیداں بیول گوجرخان کہوٹہ مندرہ اور مضافات میں پنڈی پوسٹ کا ہرشمارہ پہنچانا اپنی ذمہ داری سمجھا۔
بھائی حبیب کی طرح وہ بھی زندگی کے آخری دن تک اخبار کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا ہی تصور کرتے رہے۔ لیکن یہ زندگی موت کی امانت ہے ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے اللہ تعالی اس دنیا میں خوشیاں بھی دیتاہے پھر اس واپس بھی لے سکتا ہے یہ اس ذات کا ہی قانون قدرت ہے بندہ اس معاملات میں بے بس ہے دو ماہ قبل بھائی محمد حنیف بھی اخبار کی تقسیم کے بعد گھر پہنچے شام ہوتے ہی حرکت قلب بند ہونے سے داعی اجل کو لیبک کہہ گئے۔
اس بارہویں سالگرہ کے موقع پر میں دونوں بازؤوں سے محروم ہوچکا ہوں لیکن میرا جوش وجذبہ پہلے دن کی طرح جواں ومضبوط ہے شاید یہی وجہ ہے کہ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں بھی پنڈی پوسٹ قارئین میں ایک مقام ومقبولیت حاصل کیے ہوئے ہے۔ الحمدللہ آج پنڈی پوسٹ تنا ور درخت بن چکا ہے اس سے وابستہ ٹیم ہر روز کے طلوع ہوتے سورج کی طرح آگے کی جانب بڑھ رہی ہے وقت کے تضاضوں کومدنظر رکھتے ہوئے تبدیلیاں بھی لانے کے لیے کوشاں ہیں ہمارا یہ مشن جاری وساری رہیگاامید واثق ہے کہ ذات رب کریم ہمیں آئندہ بھی سرخرو کرے گی
یہ سب تھمارا کرم ہے آقا
کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں