ضلع راولپنڈی میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 52 کے سیاسی منظرنامہ پر نظر دوڑانے سے قبل عرض کرتا چلوں کہ قومی اسمبلی کے اس حلقہ کے متعلقہ صوبائی اسمبلی کے دو حلقہ جات پی پی پانچ اور پی پی چھ شامل ہیں اور دلچسپ امر یہ کہ دونوں صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے کلچر (رسم رواج ، رہن سہن اور سیاسی سوچ میں نہ صرف بہت زیادہ فرق ہے بلکہ پی پی پانچ کے تھانہ چونترہ اور روات کلرسیداں کی سیاسی سوچ بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے اس لئے اس علاقہ کے رہائشیوں کی نفسیات کو سمجھنے کے لئے بھی امیدواران اسمبلی کو خاصہ وقت درکار ہوتا ہے اوریہ عجیب حسن اتفاق ہے کہ یہاں م 1985کے عام انتخابات میں پہلی بار ممبر قومی اسمبلی منتخب ہونے والے موجودہ وفاقی وزیر داخلہ نے علاقہ کی نفسیات کو کچھ اس انداز میں سمجھ لیا کہ آج تک ہر آنے والے الیکشن میں مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرتے چلے آرہے ہیں ان کی اس کامیابی میں جہان ان کی اپنی سیاسی حکمتِ عملی اور بالخصوص ان کی قسمت اورمقدر کا عمل دخل ہے وہاں مخالف سیاسی جماعتوں کی ٹکٹ فراہم کرنیکی پالیسی کا بھی بڑا کردار ہے سابقہ حلقہ این 40 کا مختصر ذکر کرتے چلیں تو یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ 1985کے غیر جماعتی انتخابات میں چوہدری نثار علی خان کے مدِ مقابل ڈاکٹر کمال ’’جماعتِ اسلامی(صدر ضلع راولپنڈی )اور ان کے قریب ترین حریف سید صفدر شاہ پی پی پی (مرحوم )تھے تو 1988کے جماعتی انتخابات میں ان کا مقابلہ مری کے رہائشی کرنل ریٹائرڈحبیب مرحوم سے ہوا مگر 1990میں پی پی پی کے امدواربرائے قومی اسمبلی خان غلام سرور خان تھے جن کو 1993 کے عام انتخابات میں بھی پی پی پی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لینے کا موقع ملا اس کے علاوہ جس امیدوار کو ایک دفعہ ٹکٹ دیا گیا بوجہ آئندہ الیکشن میں امیدوار تبدیل کر دیا گیا جس کا براہ راست سیاسی فائدہ چوہدری نثار علی خان کو ہوتا رہااس کے ساتھ ساتھ 1985 سے تاوقت تحریرپنجاب میں حکومت مسلم لیگ ہی کی رہی جس کے باعث اپنے حلقہ انتخاب میں چوہدری نثار علی خان ترقیاتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ انفرادی طور پر بھی اپنے سپورٹرز کو سرکاری ملازمت اور دیگر زرائع سے گاہ بگاہ نوازتے رہے ان ساری وجوہات کے پیشِ نظرموجودہ وفاقی وزیر داخلہ کی پوزیشن دن بدن مضبوط ہوتی گئی ۔
گو کہ پرانے حلقہ این اے چالیس میں ٹیکسلا واہ فیکٹری اور چونترہ کی یونین کونسل ہائے چکری ،پڑیال ،کولیاں حمید،سیال اور چیان میں چوہدری نثار علی خان کی پوزیشن نسبتا کمزور تھی اور اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ مذکورہ علاقہ میں متواترخان غلام سرور خان کا مستقل حلقہ ہونا تھی جہاں پینڈ نوشیری کے خان برادارانخان صدیق خاناور خان غلام سرور خان نے دھڑے بندی سیاست کو پروان چڑایااور اپنے ووٹرز سپورٹرز کی ہر وقت اور ہر سطح پر خبر گیری جاری رکھی مگر حلقہ این اے باون میں ایسا کوئی مستقل مزاج نہ آ سکا جو چوہدری نثار علی خان کو ٹف ٹائم دیتا تاہم( ق) دور میں راجگان دھمیال نے اپنے تئیں کوشش ضرور کی مگر بے سود، 2013 کے عام انتخاب میں پی ٹی آئی نے ایک غیر سیاسی شخصیت کرنل ریٹائرڈ اجمل صابر راجہ کو قومی اسمبلی کے لئے این باون سے ٹکٹ تو دے دیا مگر ان کی حلقہ میں عدم واقفیت کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی نے امیدوار برائے صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی پانچ کے لئے انتہائی غیر معروف شخص ہارون ہاشمی کو ٹکٹ دیا گیا جن کا تعلق حلقہ پی پی ) (2 کے ایک گاؤں پنڈ بینسوسے تھا اور ان کی مذکورہ حلقہ میں نہ ہی تو کوئی ٹیم تھی اور نہ کوئی واقفیت اس پر مستزاد یہ کہ تحریک انصاف کے ٹکٹ کی تقسیم پر اختلافات بھی موجود تھے ان سارے عوامل سے تحریک انصاف کو این اے باون میں سخت نقصان ہوا گو کہ پی پی چھ میں نوجوان امیدوار واثق قیوم عباسی نے خوب محنت کی دوسرا شہری علاقوں میں نسبتا پی ٹی آئی کو ووٹ کی شرح بھی بہتر رہی اب آئندہ عام انتخابات 2018کی بات کی جائے تو وفاقی وزیر داخلہ نہ صرف گزشتہ چار سال سے بلکہ شروع دن سے اپنے معاونین خصوصی کی شکل میں ایک مکمل اور انتہائی متحرک ٹیم کے ذریعے حلقہ کے حالات واقعات سے باخبر بھی رہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ترقیاتی منصوبے بھی جاری رکھے ہوئے ہیں دوسرا ایڈوانٹج وفاقی وزیر کو یہ بھی ہے کہ ابھی تک مخلف سیاسی پارٹیوں بالخصوص پی پی پی، مسلم لیگ قائدِاعظم اور پی ٹی آئی نے باقائدہ کسی امیدوار کونہ ہی قومی اسمبلی کے لئے فائنل کیا گیا اور نہ ہی اپنے طور پر کوئی امیدوار سامنے آسکا ہے البتہ پاکستان تحریک انصاف کے ڈپٹی کوآرڈینیٹر ضلع روالپنڈی راجہ ساجد جاویدجن کا تعلق پی پی پانچ کے معروف گاؤں میرا سنگال ( کلریاں) سے ہے اور موصوف 1987سے اب تک سیاسی جدو جہد میں مصروف عمل ہیں اور جن کے بارے میں پی ٹی آئی کے نوے فیصد ورکر کی رائے بھی ہے کہ این اے باون یا پی پی پانچ کسی بھی نشست کے لئے اگر راجہ ساجد جاوید کوٹکٹ دیا جائے تو کامیابی یقینی مل سکتی ہے مگر جیسا کہ ہم پہلے تفصیل سے روشنی ڈال چکے ہیں کہ حلقہ این اے باون ،پی پی پانچ کے ووٹرزکی نفسیات ہی کچھ ایسی ہے یہاں کلر سیداں سے اگر کوئی سیاسی ورکر انتخابات میں حصہ لے تو کامیابی مل سکتی ہے بشرطیکہ امیدوار مقامی بھی ہو اورہر دل عزیز بھی مگر دلچسپ امر یہ کہ مسلم لیگ (ن )کے علاوہ تمام پارٹی ٹکٹ سفارشی بنیادوں پر دیے جاتے رہے پی پی پی نے دو دفعہ پی پی( دو) کے رہائشی اور لندن میں مقیم بیرسٹر ظفر اقبال چوہدری کو آزمایا اور یہی پرکٹس تحریک انصاف نے 2013 کے عام انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم میں بھی جاری رکھی اور ایک دفعہ پھر نتیجہ حسب روایت ہی رہا اب اگر مسلم لیگ مخالف پارٹیوں کی اگر یہ خوائش ہے کہ مسلم لیگ کو شکست دی جائے تو لازمی ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں مقامی قیادت کے ساتھ ساتھ مقامی افراد اور ووٹرز کی رائے کا احترام کیا جائے جہاں تک پی پی پی کا تعلق ہے ابھی تک کوئی امیدوار سامنینہیں آ سکا نہ ہی راجگانِ دھمیال نے کوئی فیصلہ کیا بلکہ چند دن قبل سابق صوبائی وزیر قانون و بلدیات پنجاب محمد بشارت راجہ سے ایک مختصر سی ملاقات بھی ہوئی مگر کوئی سیاسی نقچہ نہ نکل سکا مختصر یہ کہ موجودہ صورت حال میں دو ہی سیاسی پارٹیاں آئندہ الیکشن کی تیاریوں میں مصروف ہیں ہاں پی ٹی آئی کے سابق امیدوار قومی اسمبلی کرنل (ریٹائرڈ) اجمل صابر راجہ کبھی کبھار چند مخصوس دوستوں کے ساتھ فیس بک پر نظر آجاتے ہیں مگر اگر حقیقی تجزیہ کیا جائے تو وزیر داخلہچوہدری نثار علی خان کے مقابلہ میں اگر کامیابی حاصل کرنی کی کوئی خوائش کرے تو اسے رات دن ایک کرکے ووٹرز سے رابطہ میں مصروف رہنا پڑے گا ورنہ ہنوز دلی دور استجہاں تک این اے باون کی موجودہ حقیقی سیاسی پوزیشن کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شق نہیں کہ سیاست ،وزارت کے ساتھ ساتھ موصوف کی قسمت اور ستارہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا جب تک صحیح معنوں میں عوامی رابطہ مہم تیزی سے جاری نہ رک سکے مسلم لیگ کے منظر نامہ سیاسی نقطہ نظرسے بڑاہی دلچسپ اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں تحصیل راولپنڈی کے تھانہ چونترہ کی چھ یونین کونسلز کے علاوہ تھانہ روات کی نو یو سیز شامل ہیں اس کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ق کے دور اقتدار میں سابق صوبائی وزیر قانو ن و پارلیمانی امور و بلدیات محمد بشارت راجہ کی ذاتی کاوشوں سے تحصیل کا درجہ حاصل کرنے والی تحصیل کلرسیداں کی یونین کونسل ہائے غزن آباد، بشندوٹ ،گف ،درکالی معموری ،کنوہا اور یوسی بھلاکھرشامل ہیں چونکہ 2002 کی حلقہ بندیوں کے مطابق محکمہ مال کے حلقہ قانگوئی ،پٹوارسرکلز کے ذریعے قومی اور صوبائی حلقے ترتیب دہئے گئے لہذا کچھ یونین کونسل کے بعض گاؤں ملحقہ حلقوں میں بھی شامل ہیں یہ علاقہ صوبائی اسمبلیکا حلقہ پی پی پانچ جبکہ راولپنڈی تھانہ صدر بیرونی مورگاہ اور چکلالہ کی رورل ایریاز کی یونین کونسلز پر مشتمل حلقہ پی پی چھ کہلاتا ہے جس کے بل بوتے پر وفاقی وزیر کو کامیابی مل جاتی ہے یاد رہے کہ ابھی سال ڈھیڑ سال ایلکشن میں ہے اگر پیٹی آئی این اے باون کو فتح کرنا چاہے تو ٹکٹوں کی تقسیم میں بہت باریک بینی سے سوچنا ہو گا۔{jcomments on}
75