290

انسانیت کے تقاضے اور قوانین کا نفاذ

شاہد جمیل منہاس/دسمبر کی ایک شام جب میں اسلام آباد سے راولپنڈی آرہا تھا کہ اچانک ہائی وے موڑ پر میری گاڑی کے نیچے ایک پھٹی ہوئی اور خون میں لت پر قمیض آئی جسے دیکھ کر میرا جسم کانپ اُٹھا۔ لیکن چونکہ گاڑی کی سپیڈ معمول کے مطابق تھی لہذا میں رُک نہ سکا یا شائد میرے اندر رُکنے کا حوصلہ بھی نہ تھا۔ چند قدم آگے گیا تو کچھ سبزیاں، ٹماٹر اور پیاز وغیرہ سڑک پر بکھرے ہوئے دیکھے۔ جنہیں دیکھتے ہی میری روح ایک دفعہ پھر کانپ اُٹھی۔ اور مزید چند سیکنڈ کے بعد میں نے وہ منظر دیکھا کہ جس کو دیکھ کر آج کئی برس گُزر جانے کے باوجود مجھے سڑکوں اور گاڑیوں سے ڈر لگتا ہے۔ وہ منظر یہ تھا کہ ایک بہت بڑا اور لمبا ٹرالر سڑک کے بائیں سائیڈ پر عجیب و غریب حالت میں رُکا ہوا تھا۔ شائد یہ اُس کے رُکنے کی جگہ نہیں تھی۔ میں نے اُسے بائیں طرف سے کراس کر کے راستہ ڈھونڈنے کی کوشش کی تو یک دم ایسا محسوس ہوا جیسے میرے جسم سے جان نکل رہی ہو۔ کیونکہ میں نے ایک ایسے باپ کو ٹرالر کے دوگز چوڑے پہیوں کے نیچے دیکھا جو شام کو روزی کمانے کے بعد اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیئے کھانے پینے کی اشیاءلے کر خوشی خوشی گھر جا رہا تھا۔ اور بے رحم ٹرالر اُسے موت کی آغوش میں لے گیا۔ نہ جانے کیا کیا مستقبل کے منصوبوں کے ساتھ وہ گھر کی جانب رواں دواں تھا کہ گھر پہنچوں گا تو بیٹا چلا اُٹھے گا کہ ابّو آگئے۔ دروازہ پہلے کھولنے کی دوڑمیں آج پھر ایک دوسرے سے لڑیں گے۔ جسے میں دیکھنے کا ہمیشہ منتظر رہتا ہوں اوربھی بہت کچھ۔ یہ ان ہزاروں حادثات میں سے صرف ایک حادثہ ہے کہ جسے میں نے دیکھا اور جو میں نے نہیں دیکھے بلکہ ہم نے سُنے تک نہیں لیکن ہو چکے ہیں۔ وہ شخص جو کسی بھی حادثہ کا شکار ہوا کسی ایک انسان کی لاپرواہی کہ وجہ سے اس کے دُکھوں کا مداوا کون کرے گا۔ یہ کیسی دھرتی ہے کہ جس میں پٹرول گاڑی کی ٹینکی میں نہیں بلکہ ایک بوتل یا کین میں ڈال کر فرنٹ سیٹ کے نیچے ڈرائیور کے پاو¿ں کے ساتھ یا کسی سواری کے پاس رکھ دیا جاتا ہے۔ یعنی آگ کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔ اس حوالے سے گجرات شہر کاایک واقعہ آج بھی دل ہلا دینے کا سبب بن رہا ہے۔ کہ جس نے کئی ماو¿ں کے جگر گوشوں کو آگ کی نظر کر دیا۔ جن کے کھیلنے کودنے کے دن تھے جو کلاس میں بیٹھ کر اپنی نظر کتاب پر اور ذہن اس دس روپے والے کھلونے کی طرف رکھتے ہیں کہ چھٹی ہو گی تو پہلے کھیلوں گا اور پھر کھانا کھاو¿ں گا۔ اُف میرے خدایا! وہ والدین آج کے دن اور راتیںکیسے بسر کرتے ہوں گے کہ جو اپنے جگر گوشوں کو اپنے سینے سے لگا کر سلایا کرتے تھے ۔ آج اگر کوئی ان کی تڑپ دیکھے تو اُسے محسوس ہو کہ ماں کی مامتا کسے کہتے ہیں اور باپ بغیر بازو¿وں کے کیسا ہوتا ہے۔ کیونکہ اولاد والدین کے لیئے جسمانی اعضاءیا بیساکھیاں ہوتے ہیں۔ ایسے سب واقعات ہو جانے کے بعد بے رحم ڈرائیورحضرات نہ جانے کہاں چھپ جاتے ہیں۔ صرف اس لیئے کہ پولیس پکڑ کر لے جائے گی۔ اورپھر اس پکڑ کا کیا ہو گا جو قیامت کے روز ربّ ذولجلال کی طرف سے ہو گی۔ جب ایک دن دُنیا کے ہزاروں ایّام سے بھی زیادہ طویل ہو گا۔ رات وہ جو ختم ہونے کا نام نہ لے گی۔وہ رات صرف طویل نہیں بلکہ آگ کا سمندر ہو گا۔ جس میں انسانیت سے کھیلنے والے گنہگاروں کو پگھلایا جائے گا اور موت پھر بھی نہ آئے گی۔ یعنی ایسے گنہگار ربّ سے موت مانگیں گے۔ لیکن موت ہے کہ قریب تک نہ آئے گی۔ اتنی لمبی چوڑی تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ مُلکی قوانین کا نفاذہی ایسی تباہی اور بربادیوں کا قلع قمع کر سکتا ہے۔ دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک آج اگر ترقی کی راہ پر مسلسل گامزن ہیں تو اُسکی بڑی وجہ قوانین کا نفاذ اور بدعنوانی سے پاک انتظامیہ کا ہونا ہے جو ڈاکوو¿ں لٹیروں اور قوانین توڑنے والوں کا ساتھ نہیں دیتے۔ بلکہ مُلکی سلامتی کو اولین فریضہ سمجھتے ہیں۔ سعودی عرب میں جب کوئی ڈرائیونگ کے دوران کوتاہی برتے اور اپنے ہی خاندان کو حادثے کا شکار کر دے تو بھی اسے عدالت میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ اور لاپرواہی کی سزا جیل کی صورت میں ملتی ہے۔ مُلکی قوانین کی پابندی کروانا کسی مُلک کے حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ غیر مسلم معاشرے پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایک باپ اپنے بیٹے کو اپنی پسندیدہ پارٹی کو ووٹ دینے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ جب کسی معاشرے میں کسی انسان کی انسانیت کو دیکھ کر ووٹ پڑے تو وہ معاشرہ کبھی برباد نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت کی اصل روح بھی یہی ہے۔ اسلام تو جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار ہے۔ یعنی غیر مسلم معاشرے کو بھی یہ باور ہو چُکا ہے مذہب اسلام اور اُس کی تعلیمات جو مسلمانوں کے آخری نبی لے کر آئے وہ قابل قدر خزانہ ہے۔ افسوس یہ ہے کہ ہم آج ان تعلیمات سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ حاکم وقت کی مثال ایک گھر کے سربراہ کی سی ہے۔ اگر وہ نماز پڑھے گا تو اولاد بھی نماز کی پابند ہو گی۔ اگر وہ جھوٹ بولے گا تواہل و عیال کو یہ جُرم کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لہذا حاکم وقت کا پاکباز اور باکردار ہونا ایک صاف ستھرے معاشرے کی بہترین مثال ہے۔ معاشرہ گنہگار اس وقت ہوتا ہے جب حکمران لاپرواہ اور گنہگار ہوں۔ اورپھر ایک معاشرے کو ہم سب نے چار چاند لگتے ہوئے بھی دیکھا ہے کہ جب دولت کو ثانوی اہمیت اور ملکی سا لمیت کو اپنا فرض سمجھنے والے مرد قلندر لوگوں نے مُلک کی بھاگ دوڑ سنبھالی۔ اللہ سے دُعا ہے کہ ہمیں حکمران چُنتے ہوئے ہمارے دل میںاپنا خوف پیدا کرے کہ ہم ووٹ ڈالتے ہوئے کہیں گنہگار تو نہیں ہو رہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں