طالب آرائیں/بروقت اور درست فیصلہ بڑی سے بڑی مشکل سے بچا لیتا ہے۔اگر انسان پہلی ٹھوکر پر ہی سنبھلنا نہیں سیکھتا تو پھر شائید اسے قسمت دھیرے دھیرے ٹھوکروں میں لے آتی ہے زن زر اور زمین کو ازل سے فتنہ وفسادکی جڑ تصور کیا جاتا رہا ہے اور شاید اب تک ایسا ہی سمجھا جاتا رہے کیونکہ اس کا تعلق انسان کے جذبات واحساسات اور ضمیر سے بہت گہرا ہوتا ہے لیکن ان تین کے علاوہ بھی کئی اور چیزیں بھی فتنہ وفساد کا موجب بنتی ہیں۔جن میں ایک پاکستانی سیاست کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔جس طرح اول الذکر تین وجوہات لڑائی جھگڑے اور فساد کا موجب بنتی ہیں اسی طرح ملکی سیاست میں شامل مفاد پرستی‘اناپرستی اور اختیارات کے حصول کی جنگ بھی فتنہ وفساد کا کارن بنتی ہے اور یہ ملکی سیاسی جماعتوں کے باہم لڑائی جھگڑے کے ساتھ ساتھ ہر جماعت کے اپنے اپنے اندر بھی ٹکراؤ کا سبب بنتی ہے۔ مفاداتی سیاست کو قوم کی خدمت کا نام دے کر اپنے مفادات سمیٹے جاتے ہیں۔گوجر خان میں تین بڑی جماعتوں کا ذکر کریں تو اس وقت پیپلز پارٹی وہ واحد جماعت ہے جس میں عہدوں اور ٹکٹوں کی جنگ موجود نہیں‘وجہ شائید اس جماعت کا پنجاب میں کم اثر ورسوخ کہا جاتا سکتا ہے۔اس وقت اس جماعت کے پاس ماسوائے راجہ پرویز اشرف اور ان کے بیٹے خرم پرویز کے اور کوئی ٹکٹ کا امیدوار نہیں اور شاید اسی لیے اس میں دھینگا مشتی اور گروپنگ کی کیفیت موجود نہیں۔پی ٹی آئی میں عہدوں کو لے کر کچھ اختلافات رہے لیکن ن لیگ کی نسبت تحریک انصاف میں یہ اختلاف قدرے کم ہیں دھڑے بندی کے حوالے سے ن لیگ سب سے زیادہ متاثرہ جماعت ہے۔ جس میں دو سے زائد دھڑے موجود ہیں۔ قومی اسمبلی کی نشست پر راجہ جاوید اخلاص اور چوہدری خورشید زمان ٹکٹ کے خواہشمند ہیں۔ جبکہ حلقہ پی پی 8اورپی پی9 سے بالترتیب چوہدری افتخار وارثی اور شوکت بھٹی ایک طاقت کے طور موجود ہیں جن کی رضامندی اور ساتھ کے بغیر کسی ٹکٹ ہولڈر کی کامیابی خواب ہوگی۔چوہدری خورشید زمان جو ایک وقت میں ن لیگ چھوڑ کر ق لیگ کے وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کے مشیر بھی رہے اور پھر ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بنائی جماعت تحریک تحفظ پاکستان میں مرکزی عہدے پر فائز رہے لیکن بوجہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی جماعت ختم کردی تو ایک بار پھر چوہدری خورشید زمان مسلم لیگیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کے دعوےٰ کے ساتھ دوبارہ مسلم لیگ میں ایکٹو ہوئے لیکن وہ لیگیوں کو ایک جگہ متحد کرنے میں کوئی زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آئے۔کیونکہ سوائے دعوؤں کے عملی طور پر وہ اس سلسلے میں سنجیدہ نظر نہیں آئے۔بظاہر تو چوہدری خورشید زمان اور راجہ جاوید اخلاص اس نکتے پر متفق ہیں کہ پارٹی جس کو ٹکٹ کا اہل سمجھے گی باقی سب اس کا ساتھ دیں گے لیکن اس نکتے کی بنیاد پر سب ایک جگہ اکٹھا ہونے کے بجائے الگ الگ دکھائی دیتے ہیں۔ باتوں کی حد تک تمام لیگی رہنماپارٹی سے مخلص اور جان چھڑکنے کے دعویٰ دار ہیں لیکن کوئی بھی تمام اسٹیک ہولڈر کوایک نکاتی ایجنڈے پر ایک پلیٹ فارم پر بٹھانے کی سنجیدہ کوشش کرتا نظر نہیں آتا۔گو کہ نئی تظیم سازی میں دونوں گروپوں کی مشاورت شامل ہے لیکن حالیہ دنوں میں تحصیل صدر کی جانب سے اس سلسلے میں بلوائے جانے والے اجلاس میں حلقہ پی پی8 اور9 سے بالترتیب افتخار وارثی اور شوکت بھٹی کو نظر انداز کیا گیا۔حلقہ پی پی 8 میں چوہدری افتخار وارثی ایک بہت بڑے ذاتی ووٹ بینک کی حامل شخصیت ہیں جبکہ حلقہ نو سے شوکت بھٹی جنہیں 2018کے ٹکٹ ہولڈر نظر انداز کرنے کی غلطی کا خمیازہ بھگت چکے ہیں۔لیگی عہدے داران کو اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ ان دونوں شخصیات کو مائنس کر کے مسلم لیگ کی جیت قطعی طورممکن نہیں۔مسلم لیگ کے ٹکٹ کے خواہشمند یاد رکھیں کہ گوجر خان کی نشستیں جیتنے کے لیے افتخار وارثی اور شوکت بھٹی کی حمایت اور تائید ضروری ہے ورنہ حشر 2018 سے قطعی مختلف نہ ہوگا۔
250