دو پل کو ہی پر روز نظر تو آیا کر
تیری ایک جھلک کی خواہش اکثر ہوتی رہتی ہے
تجھے یاد رکھوں کے بھول جاؤں یہ فیصلہ کر نہیں پاتا
جنوں و خرد میں یہ کشمکش اکثر ہوتی رہتی ہے
کچھ نیا نہیں کہ کوئی دیوانہ آج اپنی جاں سے گزر گیا
دنیائے محبت میں یہ شورش اکثر ہوتی رہتی ہے
اب تو اجاڑ نہیں عدن کے دل کی ویران بستی بھی
یہاں تیری یادوں کی بارش اکثر ہوتی رہتی ہے
(عدن بن خرم‘دوبیرن کلاں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھک گئے ہو؟ تَو تھکن چھوڑ کے جا سکتے ہو
تم مجھے واقعۃً چھوڑ کے جا سکتے ہو
ہم درختوں کو کہاں آتا ہے ہجرت کرنا
تم پرندے ہو‘ وطن چھوڑ کے جاسکتے ہو
تم سے باتوں میں کچھ اِس درجہ مگن ہوتا ہوں
مجھ کو باتوں میں مگن چھوڑ کے جا سکتے ہو
(طیبہ نورین)
130