اسلام پورہ جبر مدرسے کے طالبعلم سے معلم کی زیادتی 286

اسلام پورہ جبر مدرسے کے طالبعلم سے معلم کی زیادتی

طالب حسین آرائیں/ازل سے نیکی اور بدی کے درمیان جنگ جاری ہے جو ابد تک جاری رہے گی یہ ایک ایسی کھلی حقیقت ہے جسے سب جانتے ہیں مگر اسے ماننے کے لیے نفس کو مارنا لازم ہوتا ہے اب بات نفس کشی اور صحیح وغلط میں تمیز کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی آتی ہے سنا ہے کہ درندہ صفت انسان کا دل پتھر کا ہوتا ہے جو زندگی کو محض کھیل تماشہ سمجھ کر جب دل چاہے کسی کی زندگی کو برباد کر گذرتا ہے جس طرح انسانی جسم مختلف اعضاءکا مجموعہ ہوتا ہے اسی طرح انسانی زندگی بھی مختلف رشتوں سے جینی پڑتی ہے اور انسانیت اور احساس کا رشتہ دنیا میں سب سے بڑا رشتہ ہوتا ہے جب انسان کے اندر سے احساس اور انسانیت مرجائے تو انسان حیوان بن جاتا ہے اس کے علاوہ معاشرتی اور کچھ مذہبی وفطری قوانین کی پاسداری بھی جینے کے لیے اہم ہوتی ہے یہ حقیقت ہے کہ قانون کہیں کا بھی ہو اگر اس کا نفاذ مکمل دیانت داری سے کیا جائے تو معاشرے میں بہت سی نمایاں تبدیلیاں آتی ہیں معاشرہ افراد کے اجتماع کا نام ہے افراد کے اس اجتماع میں اگر قانون کی عملداری طاقت ور اور کمزور کو دیکھ کر کی جائے تو اس معاشرے میں ہر روز المیے جنم لیتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں قانون صرف کتابوں میں درج کرنے کےلئے بنائے جاتے ہیں ان کا مکمل نفاذ نظر نہیں آتا‘یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں ہر روز المناک واقعات رپورٹ ہوتے ہیں۔خصوصاً جنسی زیادتی کے واقعات تو بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں جزاوسزاکا نظام کمزور ہونے پر درندہ صفت اور مجرمانہ ذہن کے لوگ دیدہ دلیری سے ایسے گھناونے کام کر گذرتے ہیں حالیہ کچھ عرصہ میں عام واقعات کے علاوہ مدارس میں بچوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے گو کہ ایسے واقعات کو کسی فرقہ‘مسلک یا مولوی سے جوڑنا سراسر حماقت ہے لیکن ایسے واقعات کو ہمارے لبرل اور دین سے بیزار لوگ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں ایسے قبیح فعل کا مرتکب کوئی مولوی ہو وکیل ہو یا کوئی عام آدمی گناہ کو صرف انسانی فطرت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے بحیثت مسلمان ہم سب پر شرعی حدود کی پاسداری لازم ہے سزائیں سب کے لیے ایک جیسی ہی تجویز کی گئیں ہیں۔لیکن یہ ضرور ہے کہ دینی تعلیم کے مراکز میں ہونے والے واقعات اس حوالے سے زیادہ قابل مذمت ہوتے کہ یہ لوگ ہمیں شریعت کے حوالے سے غیر اخلاقی اور غیر قانونی فعل کی شرعی سزاوں اور جنت ودوزغ بارے اگاہی دیتے ہیں۔گذشتہ دنوں بیول کے نواح میں واقع اسلام پورہ جبر کے ایک مدرسے میںزیریں پنجاب کے علاقے مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے معلم نے مدرسے میں دینی تعلیم کے لیے آنے والے بچے کو زیادتی کا نشانہ بنایا علاقہ مکینوں نے اسے تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے قاضیاں پولیس چوکی پر معمور انچارچ کے حوالے کر دیا جسے بعد ازاں گوجر خان شفٹ کیا گیا۔اطلاعات ہیں کہ متاثرہ بچے کو بھی گوجر خان بھجوایا گیا ہے جہاں قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے شاید بچے کا میڈیکل کروایا جائے گا۔ فضاو¿ں میں پھیلی ماروائی لہروں کا جال اس دور کے کمزور نفس انسان کو جکڑتا جارہا ہے یہ ریڈیائی لہریں اور ان میں چھپے متحرک و ساکت تصویری فتنے بعض صورتوں میں ہولناک رنگ دیکھا رہے ہیں۔تمام مذاہب کی عبادت گاہیں‘ مساجد‘ مدارس‘ مندر’ کلیسا‘سینی گاگ‘دھرم شالے اور اناتھ آشرم وغیرہ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق بہت نیک نیتی سے ہی بنائے جاتے ہیں لیکن جب بانیوں کے بعد ان کی باگ دوڑ بگڑے ذہن کے نفس پرور لوگوں کے ہاتھوں میں آتی ہے تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔برائی کے کھیل کھیلنے والے ہر مذہب اور ہر معاشرے میں موجود ہیں انہیں کسی مسلک‘کسی فرقے یا کسی مذہب سے جوڑ کر تنقید کسی طور مناسب نہیں۔مندروں‘دھرم شالوں اور کلیساو¿ں میں ہونے والے ایسے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ایک وقت میں پاپ پال نے ایسے ہی گھناونے الزمات پر راہبوں کو کلیسا سے بے دخل کیا تھا لیکن وہاں کسی نے اس حوالے سے مذہب کو تارگٹ نہیں کیا استحصال کی صورت کوئی بھی ہو قابل نفرت ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ جنسی زیادتی کے خلاف سخت قوانین متعارف کروائے جائیں لیکن ان پر عمل بھی کروایا جائے۔مدارس کے لیے علاقہ کے لوگوں کو ہی درس وتدرس پر معمور کیا جائے جن کی فطرت وطبیعت سے اہل علاقہ واقف ہوں۔اس سے قبل گوجر خان میں ایک ایسا ہی شرمناک واقعہ رپورٹ ہوا تھا ان واقعات سے بچنے کے لیے مدرسے کو چلانے کے لیے بنائی جانے والی کمیٹیاں متحرک ہوں۔اساتذہ کے کردار کو پرکھنے کے علاوہ ان کے رویے اور فطرت کو بھی واچ کیا جائے۔والدین بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کریں مدرسہ سے واپسی پر بچے کے رویے میں بدلاو کو محسوس کریں تو بچے سے معاملات لیں۔کیونکہ معاشرے کو بہتر بنانا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں