138

اراکین اسمبلی کا انوکھے احتجاج کا اعلان

طالب حسین آرائیں/نئے سال کا پہلا ماہ اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا ہے امید تھی کہ نئے سال میں قوم کو حالات میں مجموعی بہتری کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور نظر آئے گی لیکن نئے سال کے اختتام پر پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ اور نئے سال کے پہلے ماہ میں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اس امید کو بہا کر لے گیا اس وقت وطن میں صرف سیاست کھیلی جارہی ہے ہر طرف بلند وبانگ دعوؤں اور آتش فشانی بیانات کا شور برپا ہے اور اس کی گونج وسیع وعریض میدانوں سے پارلیمنٹ تک سنی جارہی ہے لیکن ہمیں ان سے کیا غرض کیونکہ ہم تو عوام ہیں اور ہمارا طریقہ استعمال ہمارے رہنما بہت خوب جانتے ہیں وہ وعدے وعید کرکے کسی نہ کسی طرح ہمیں اپنے حق میں ووٹ کے لیے قائل کرلیتے ہیں پھر پوری مدت اقتدار میں ہمیں یکسر بھولے رہتے ہیں بعض تو اتنے بے نیاز ہوتے ہیں کہ ہمیں ٹشو پیپر جتنی بھی اہمیت نہیں دیتے ان کی دانست میں سیاست لڑنا پیشہ وروں شرفاء(جی ہاں شرفاء) اور مقتدر خاندانوں کا ہی حق ہوتا ہے یہ دل فکار باتیں تو یونہی یاد آگئیں بات کرنا تھی موجود حکمرانوں کے وعدوں اور دعوؤں کی جس میں معیشت کی بہتری‘پروٹوکول اور اقربا پروری کا خاتمہ مہنگائی پر کنٹرول‘لوٹی رقم کی واپسی ان سب کے وعدوں کا جو حشر ہوا سوا ہوا لیکن اس جماعت کے چھوٹے سے چھوٹے رہنما نے اپنی الیکشن مہم میں تھانہ کچہری کلچر کے خاتمے اور پولیس کو غیر سیاسی بنانے کے بلند وبانگ دعوے کیے تھے لیکن حقائق یہ ہیں کہ اس جماعت کے لوگ سابقہ ایم پی ایز وایم این ایز سے بڑھ کر تھانہ کچہری کی سیاست میں کر رہے ہیں۔جس کا واضح ثبوت سی پی او راولپنڈی احسن یونس کیخلاف راولپنڈی کے ایم پی ایز کا مشترکہ احتجاج ہے جس کے تحت ان ایم پی ایز نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔اطلاعات کے مطابق سی پی او احسن یونس کے رویے سے نالاں ایم پی ایز کا کہنا ہے کہ سی پی او ان کے کہنے پر افسران کی تعیناتی وٹرانسفر نہیں کرتے۔تنوع کے متلاشی لوگ معززاور بلند مقام کے حصول کی خاطر خود کو کتنی پستی میں گرا لیتے ہیں زندگی کی حٹیتیں بڑی سنگین ہوتی ہیں عرش سے فرش پر پٹخ دیتی ہیں عقلمندوں کا کہنا ہے کہ اس بھاری پتھر کو ہاتھ نہ لگاؤ جسے اُٹھانا تمہارے بس میں ہو یا سمندر میں تیر کر اتنے دور نہ جاو کہ واپسی کا راستہ مشکل ہوجائے۔تحریک انصاف کے لوگوں نے الیکشن سے قبل جو دعوے اور وعدے کیے اقتدار میں آکر اس کے یکسر مخالف سمت چل رہے ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ گوجر خان سے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی بھی کسی پولیس ا ہلکار کے تبادلے کے لیے وزیر قانون سے فون کرواتے رہے جس پر قانون کے رکھوالے سی پی او نے انہیں ایک ہی بار اپنے مخالفین اہلکاروں کی لسٹ بنا کر دینے کا طنز کیا پولیس کلچر میں تبدیلی کے داعی خود اپنے وعدوں اور دعوؤں کے برعکس پولیس کو اپنی انا کی بھینٹ چڑھنے پر تلے ہیں بیول اور گوجر خان میں قبضہ مافیا کے خلاف کاروائی کا نہ ہونا بھی اداروں میں مداخلت کا واضح ثبوت ہیں۔پیش جو دیکھا رہا ہے اس کا تعلق جذبہ واحساس سے نہیں جڑتا ایسے ہی کرداروں کے گرد گھومتی یہ کتھا ہے جو قیام پاکستان سے شروع ہوئی اور اب تک سنائی جا رہی ہے۔عوام کے ساتھ وارداتیں ہنوز جاری ہیں بلکہ نئے پاکستان بنانے والے اس میں سابق سے برتر ہیں اس وقت ملک خوفناک داخلی صورتحال سے دوچار ہے اس کے تدارک کے لیے انقلابی سوچ اور راہ عمل کی اشد ضرورت ہے لیکن افسوس کہ ہمارے منتخب رہنماؤں کو پولیس میں اپنی مرضی کے افسران اور اپنے ناپسندیدہ ملازمین کی ٹرانسفر اور تعیناتی جسے مفاداتی معاملات سے آگے دیکھنے کی فرصت نہیں۔تبدیلی کا نعرہ کہیں ہوا میں تحلیل ہوچکا یہ نعرہ لگانے والے تو ایک پولیس اہلکار کی ٹرانسفر کے لیے وزیر قانون تک رسائی کر رہے ہیں جس سے تبدیلی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

خبر پر اظہار رائے کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں